پيام عشق

Monday 19 March 20120 comments

پيام عشق


سن اے طلب گار درد پہلو! ميں ناز ہوں ، تو نياز ہو جا
ميں غزنوي سومنات دل کا ، تو سراپا اياز ہو جا
نہيں ہے وابستہ زير گردوں کمال شان سکندري سے
تمام ساماں ہے تيرے سينے ميں ، تو بھي آئينہ ساز ہو جا
غرض ہے پيکار زندگي سے کمال پائے ہلال تيرا
جہاں کا فرض قديم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا
نہ ہو قناعت شعار گلچيں! اسي سے قائم ہے شان تيري
وفور گل ہے اگر چمن ميں تو اور دامن دراز ہو جا
گئے وہ ايام ، اب زمانہ نہيں ہے صحرانورديوں کا
جہاں ميں مانند شمع سوزاں ميان محفل گداز ہو جا
وجود افراد کا مجازي ہے ، ہستي قوم ہے حقيقي
فدا ہو ملت پہ يعني آتش زن طلسم مجاز ہو جا
يہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزري کر رہے ہيں گويا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی