سير فلک

Monday 19 March 20120 comments

سير فلک


تھا تخيل جو ہم سفر ميرا
آسماں پر ہوا گزر ميرا
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئي
جاننے والا چرخ پر ميرا
تارے حيرت سے ديکھتے تھے مجھے
راز سر بستہ تھا سفر ميرا
حلقہ صبح و شام سے نکلا
اس پرانے نظام سے نکلا
کيا سناؤں تمھيں ارم کيا ہے
خاتم آرزوئے ديدہ و گوش
شاخ طوبي! پہ نغمہ ريز طيور
بے حجابانہ حور جلوہ فروش
ساقيان جميل جام بدست
پينے والوں ميں شور نوشانوش
دور جنت سے آنکھ نے ديکھا
ايک تاريک خانہ سرد و خموش
طالع قيس و گيسوئے ليلي
اس کي تاريکيوں سے دوش بدوش
خنک ايسا کہ جس سے شرما کر
کرہ زمہرير ہو روپوش
ميں نے پوچھي جو کيفيت اس کي
حيرت انگيز تھا جواب سروش
يہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے ، نور سے تہي آغوش
شعلے ہوتے ہيں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہيں مرد عبرت کوش
اہل دنيا يہاں جو آتے ہيں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہيں
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی