کہوں کيا آرزوئے بے دلي مجھ کو کہاں تک ہے

Monday 19 March 20120 comments

کہوں کيا آرزوئے بے دلي مجھ کو کہاں تک ہے


کہوں کيا آرزوئے بے دلي مجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کي رونق ہي سودائے زياں تک ہے
وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں
ہوائے گل فراق ساقي نامہرباں تک ہے
چمن افروز ہے صياد ميري خوشنوائي تک
رہي بجلي کي بے تابي ، سو ميرے آشياں تک ہے
وہ مشت خاک ہوں ، فيض پريشاني سے صحرا ہوں
نہ پوچھو ميري وسعت کي ، زميں سے آ سماں تک ہے
جرس ہوں ، نالہ خوابيدہ ہے ميرے ہر رگ و پے ميں
يہ خاموشي مري وقت رحيل کارواں تک ہے
سکون دل سے سامان کشود کار پيدا کر
کہ عقدہ خاطر گرداب کا آب رواں تک ہے
چمن زار محبت ميں خموشي موت ہے بلبل!
يہاں کي زندگي پابندي رسم فغاں تک ہے
جواني ہے تو ذوق ديد بھي ، لطف تمنا بھي
ہمارے گھر کي آبادي قيام ميہماں تک ہے
زمانے بھر ميں رسوا ہوں مگر اے وائے ناداني!
سمجھتا ہوں کہ ميرا عشق ميرے رازداں تک ہے
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی