انسان اور بزم قد رت

Monday 19 March 20120 comments

انسان اور بزم قد رت


صبح خورشيد درخشاں کو جو ديکھا ميں نے
بزم معمورہ ہستي سے يہ پوچھا ميں نے
پر تو مہر کے دم سے ہے اجالا تيرا
سيم سيال ہے پاني ترے دريائوں کا
مہر نے نور کا زيور تجھے پہنايا ہے
تيري محفل کو اسي شمع نے چمکايا ہے
گل و گلزار ترے خلد کي تصويريں ہيں
يہ سبھي سورہء 'والشمس' کي تفسيريں ہيں
سرخ پوشاک ہے پھولوں کي ، درختوں کي ہري
تيري محفل ميں کوئي سبز ، کوئي لال پري
ہے ترے خيمہء گردوں کي طلائي جھالر
بدلياں لال سي آتي ہيں افق پر جو نظر
کيا بھلي لگتي ہے آنکھوں کو شفق کي لالي
مے گلرنگ خم شام ميں تو نے ڈالي
رتبہ تيرا ہے بڑا ، شان بڑي ہے تيري
پردہ نور ميں مستور ہے ہر شے تيري
صبح اک گيت سراپا ہے تري سطوت کا
زير خورشيد نشاں تک بھي نہيں ظلمت کا
ميں بھي آباد ہوں اس نور کي بستي ميں مگر
جل گيا پھر مري تقدير کا اختر کيونکر؟
نور سے دور ہوں ظلمت ميں گرفتار ہوں ميں
کيوں سيہ روز ، سيہ بخت ، سيہ کار ہوں ميں؟
ميں يہ کہتا تھا کہ آواز کہيں سے آئي
بام گردوں سے وہ يا صحن زميں سے آئي
ہے ترے نور سے وابستہ مري بود و نبود
باغباں ہے تري ہستي پے گلزار وجود
انجمن حسن کي ہے تو ، تري تصوير ہوں ميں
عشق کا تو ہے صحيفہ ، تري تفسير ہوں ميں
ميرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنايا تو نے
بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھايا تو نے
نور خورشيد کي محتاج ہے ہستي ميري
اور بے منت خورشيد چمک ہے تري
ہو نہ خورشيد تو ويراں ہو گلستاں ميرا
منزل عيش کي جا نام ہو زنداں ميرا
آہ اے راز عياں کے نہ سمجھے والے!
حلقہ ، دام تمنا ميں الجھنے والے
ہائے غفلت کہ تري آنکھ ہے پابند مجاز
ناز زيبا تھا تجھے ، تو ہے مگر گرم نياز
تو اگر اپني حقيقت سے خبردار رہے
نہ سيہ روز رہے پھر نہ سيہ کار رہے
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی