اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا۔۔ .......شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday, 18 March 20120 comments

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا۔۔
۔ ہے خونِ فاسد کے لئے تعلیم مثلِ نیشتر۔۔۔ اقبال اگرچہ ایک باضابطہ ماہر تعلیم نہیں ہیں، لیکن ان کی کلیات میں موجود سب ہی شعری مجموعوں میں تعلیمی تصورات جابجا نمایاں ہیں۔ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی شعری صلاحیتوں کو بطور  خاص تعلیمی نظام اور تعلیمی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ اگرچہ دنیا کاہر ادیب زماں ومکاں میںقید ہوتا ہے یعنی وہ ایک خاص دور کی بات کرتا ہے اور ایک خاص جغرافیائی خطےِ پر مبنی اپنے خیالات پیش کرتا ہے۔ کوشش کے باوجود وہ زماں ومکاں کی زنجیر سے آزاد نہیں ہوپاتا۔لیکن علامہ اقبال کامعاملہ ایک جدا گانہ ہے۔اقبال کاعہد چونکہ انگریزوں کاعہد تھا پورے ملک کی سماجی‘ اقتصادی ،معاشی اور معاشرتی فضاکروٹ بدل رہی تھی۔اگرچہ تمام ادیبوں نے حالات اوروقت کے تقاضوں کومدِ نظر رکھ کر اپنے افکار پیش کئے۔اقبال نے بھی ان ہی درپیش حالات کومحسوس کیا لیکن اپنے افکار اس طرح پیش کئے کہ زماں ومکان کی قید سے آزاد ہوکر ہردور اورہرملک کی ضرورت کوپورا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہندوستان کی غلامی کوبے عملی ،بے علمیِ اور جہالت کاسبب قرار دیتے ہیں۔اقبال تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عمل کوزیادہ تر جیح دیتے ہیں۔ان کے نزدیک ہر طرح کی تربیت رائیگاں ہے اگراس پرعمل نہ کیاجائے اوراپنے ذوق  وجدان کوکام میں لانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے عملی طورپراپنے آپ کواستعمال میں لانا ہی علم کی سب سے بڑی منزل ہے۔ ان کے نزدیک زندگی فطرتاً نہ ہی نیک ہے اورنہ ہی بد،بلکہ یہ سب اعمال کانتیجہ ہے۔بقول شاعر: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔ یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے۔۔۔
علامہ اقبال روحانیت کے بھی بہت قائل ہیں،اگر ان کو نیچرلسٹ اور پریگماٹسٹ کے علاوہ اڈیلسٹ بھی کہا جائے توبے جانہ ہوگا، لیکن تعلیمی نظام کے تیسرے پہلو یعنی ماحول اور رہن سہن کوبھی بہت حد تک طلبہ کی تربیت کاذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ کسی روحانی شخصیت کاشفقت بھراہاتھ بھی کرامات سے لبریزمحسوس کرتے ہیں لیکن مکتب کی کرامت پر انہیں کافی بھروسہ ہے۔ اوّل طالب علمِ کا ہونا بہت ضروری ہے وہ بھی حساس اور پرجوِش طالبِ علم۔ اس کے بعد مدرس ،جوایک ناتراشے پتھرکوایک حسین شکل دینے کاہنررکھتا ہے۔ ماہرین تعلیم نے اگرچہ اب ماحول کونظام تعلیم کاتیسرا پہلو قرار دیا ہے۔ لیکن اقبال اس تیسرے پہلو کی ترجمانی بہت پہلے سے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اوراسلامی نظام تعلیم سے اس کی مثالیں دے کریہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام فرمابرداری اورایثار وقربانی کی تعلیم ازل سے دیتا آیا ہے۔ جوایک طالب علم کاخاصہ ہوتا ہے
یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی۔۔۔ سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی۔۔۔
اقبال کاتعلیمی تصّور عشق وعقل دونوں پر مبنی ہے۔ اقبال تعلیم کے حوالے سے عشق کوایک لازمی جز قراردیتے ہیں۔ کیوںکہ عشق کی تڑپ او رگری وشدت تحصیل علم میں وہ کام کرتی ہے،جوکام گھوڑا چلانے کے لئے چابک کرتا ہے۔ اس ہی لئے یہ نسبت عقل کے عشق کو پائندہ وابدی قراردیتے ہیں۔
علم نے مجھ سے کہاعشق ہے دیوانہ پن۔۔۔ عشق نے مجھ سے کہاعلم ہے تخمین وطن۔۔۔ بندئہ تخمین وطن!کرم کتابی نہ بن۔۔۔ عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب۔۔۔ عشق کی گرمی سے معرکہ کائنات۔۔۔ علم مقامِ صفات ،عشق تماشائے ذات۔۔۔ عشق سکون وثبات ،عشق حیات وعمات۔۔۔ علم ہے پیداسوال،عشق ہے پنہاں جواب۔۔۔
اس کامطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ دل سے اورعشق کے فیصلے سے ہی کام لیاجائے عقل بھی علامہ اقبال کے نزدیک عشق کی پاسبانی کرتی ہے۔ جو سو دورزیاں کے بارے میں ہمیشہ تگ دود کرتی ہے۔ اقبال اس بات کے بھی قائل ہیں کہ عقل رہنمائی کاکام کرتی ہے۔ اورعشق کو جلا بخشی ہے۔ لیکن عقل سودوریاں میں گرفتار ہمیشہ الجھن کاشکار ہوتی ہے۔ بحرحال تحصیل علم میں عشق ایک وجدانی قوت ہے، جس کوبروکار لاکر طالبِ علمِ ناممکن کام انجام دے سکتا ہے،اس ہی لئے اقبال کے ہاں عشق کو عقل پر برتری حاصل ہے
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل۔۔۔ لیکن کبھی کبھی اسے تنہابھی چھوڑدے
اقبال اگرچہ بہ نسبت عقل کے عشق پرزیادہ زوردیتے ہیں ،لیکن ہمیشہ خدا سے دلِ بینا کی طلب کرتے ہیں۔ کیوں کہ غلام کے نزدیک دل کانور کچھ اور ہے اورآنکھ کانور کچھ اور دل بینا بھی کر خدا سے طلب۔۔۔ آنکھ کا نور دِل کا نور نہیں۔۔۔ علم میں بھی سرور ہے لیکن۔۔۔ یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں۔۔۔ گوہر نے صدف کو توڑ دیا۔۔۔ توہی آمادہ ظہور نہیں۔۔۔
اقبال کے نزدیک تحصیلِ علم کاسب سے اہم جز یہ ہے کہ انسان کے اندر عشق کاجذبہ کارفرما ہو۔انکے سامنے تعلیم کامقصد یہ ہے کہ جس طرح ایک گوہر صدف کے اندر مختلف آلام ومصائب جھیل کراور مختلف مراحل سے گزر کر ظہور پذیر ہوتا ہے اورپھر وہ اپنی اصل شناخت ظاہر کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک طالب  علم بھی علم کی تکمیل کے بعد اپنا اصلی جوہرسامنے لاتا ہے۔اوردنیا کے سامنے اپنا وجود ظاہرکرسکتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی بات دنیا کے سامنے کہہ سکے اور منواسکے۔ علامہ اقبال غوروفِکر کے عادی تھے وہ کبھی بھی تفکر سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے تھے۔ افکارِ پر یشاں کوجلابخشی اورایک کامیاب راہ پر گامزن کرنے کے لئے اقبال مرشدِ کامل اورمدرس سے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ اپنے دور کے تعلیمی ادراروںمیں انہیں فکرِ وفلسفہ ناپید دیکھائی دیتا ہے۔اور ہمیشہ شکایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ افکار پریشان کیوںکر کارگر ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ کسی مرشدِ کامل کاسایہ طالب علم پرنہ ہویامدرسہ افکار کی رعنائی واسرار کی لذت سے بے نیاز ہو۔ بقول  اقبال
مکتبوں میں کبھی رعنائی افکار بھی ہے۔۔۔ خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے۔۔۔ کیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نے کہ فِکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد۔۔۔
اقبال تعلیم کی ہمہ گیر ترقی ونشونما کے قائل ہیں۔تعلیم وتربیت سے ‘ان کی رائے یہ ہے کہ زندگی کے تمام پہلوں کی نشوونماہو۔ ملک وقوم اورہر فرد وبشر کے تقاضے نظام تعلیم سے سنوارے جائیں۔ ان کاتعلیمی مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کی زندگی اس کاایک انفرادی حادثہ نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک اجتماعی حصہ داری ہے جس میں سماج کے ہر فرد و بشر کی مداخلت ہوسکتی ہے۔ ایک انسان اپنی انفرادی زندگی سے سینکڑوں چہروں سے مسکراہٹ چھین بھی سکتا ہے اور ان کے مغموم لبوں پر تبسم کی لہر بھی دوڑاسکتا ہے۔ اقبال کے ہاں ہمہ گیر نشوونما ترقی کا مطلب بھی یہ ہے کہ انسان زندگی کے ‘سیاسی ،سماجی معاشی اور اخلاقی وغیر تمام پہلوں کی یکساں نشوونما ہو۔ لیکن اس ترقی کے سلسلے میں اقبال کبھی بھی پرانی قدروں سے بے زار نہیں ہوتے۔ وہ کبھی بھی اپنے تہذیب وتمدن کے اثاثے کوکھونا نہیں چاہتے۔
اقبال کی لفظ ذہانت کے بھی بہت قائل ہیں ان کے ہاں ذہانت ایک خداداد نعمت ہے صرف تعلیم وتربیت طلبہ کوسنوارنے سے قاصر رہتی ہے اگرچہ ان کی طبعیت سنورنے کی طرف مائل نہ ہو۔ اقبال کی شاعری میں ذہانت کے مختلف درجوں کا سراغ بھی ملتا ہے اور انسان اگرچہ خود ہی تربیت کی طرف مائل نہیں تو وہ کبھی بھی ترقی ونشوونماں کی طرف نہیں بڑھ سکتا ہے۔ نہیں طبیعت ہی جن کی مائل وہ تربیت سے نہیں سنورتے۔۔۔ ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکسِ سرو کنارِ جو کا۔۔۔ کیا ہے تجھ کوکتابوں نے کور زوق اتنا۔۔۔ صبا سے بھی نہ مِلا تجھ کوبوئے گل کا سراغ

بشکریہ:
اپنا مقام پیداکر
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی