ناقدری کی فطرت.....عارفہ صبا خان کی ایک خوبصورت تحریر علامہ صاحب کے لئیے

Sunday, 18 March 20120 comments

وقت کروٹ بدل لیتا ہے لیکن انسان اپنی ناقدری کی فطرت نہیں بدلتا۔ حضرت شعیبؑ کی قوم محض اس لئے تباہ و برباد ہوئی کہ وہ ملاوٹ گراوٹ رشوت کرپشن کا شکار تھی۔ حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی قوموں کی تباہی تاریخ کی ناقابل فراموش کہا نیاں ہیں۔ پھر کربلا کا سانحہ رونما ہوا لیکن وقت کی آندھیوں میں عبرت کا پہلو مدہم ہوتا چلا گیا۔ شاید یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ وقت پر کسی کی قدر نہیں کرتا۔ ناقدری انسان کی فطرت میں حلول کر گئی ہے۔ اسی لئے ہم پر روز کسی نہ کسی نئے سانحہ سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اقبال جیسا عظیم المرتبت شاعر ہمارے درمیان پیدا ہوا۔ اگر پاکستانی قوم اقبال کے افکار کو سمجھ لیتی تو شاید پاکستانی قوم آج سب سے باوقار، خوشحال اور باشعور قوم ہوتی لیکن ہماری بہت سی بدنصیبیوں اور کج فہمیوں کے ساتھ ہمیں ناقدری کی فطرت بھی ورثہ میں ملی ہے کہ ہم اپنے ادیبوں، شاعروں، فلاسفروں، دانشوروں اور عظیم شخصیات کی وقت پر قدر نہیں کرتے۔ ہمیشہ ہماری قوم کو بڑے لوگوں کے مرنے کے بعد یاد آتا ہے کہ ہم سے ایک عظیم ہستی بچھڑ گئی اور ہم نے وقت پر اس کی قدر نہ کی۔ یہ ہماری قوم کا بدترین المیہ ہے کہ زندہ لوگوں کو مارتے رُلاتے اور تڑپاتے ہیں اور مرنے والوں کیلئے روتے تڑپتے اور پچھتاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ماتم کرنے والوں کو دیکھ کر یاد آ گئیں اور اس لئے بھی کہ بیگم صفیہ اسحاق کی تالیف کردہ کتاب کی ایک خوبصورت اور بھرپور تقریب حمید نظامی ہال میں منعقد ہوئی۔ بیگم صفیہ اسحاق نے اقبال کے حوالے سے ایک کتاب ”عالم اسلام کا عظیم فرزند“ مرتب کی۔ اس کتاب کا انتساب جناب مجید نظامی کے نام کیا۔ نظامی صاحب نے کتاب دیکھی اور اس میں صفیہ اسحاق کی محبت اور چاہت کا رنگ دیکھ کر سراہا۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی حمید نظامی ہال میں منعقد ہوئی۔ صدارت پیر کبیر علی شاہ نے کی۔ مہمانان خصوصی مولانا احمد علی قصوری اور بیگم منیر الدین چغتائی تھیں۔ مقررین میں پروفیسر پروین خان، منشا قاضی، مرزا لطاف، پروفیسر فرح زیبا اور راقم الحروف شامل تھے۔ نظامت خواجہ فرخ سعید نے انجام دیئے۔ سب نے صفیہ اسحاق کی کاوش کو سراہا اور مجید نظامی صاحب کی علم دوستی اور اقبال شناسی کی داد دی۔ پیر کبیر علی شاہ کا جوش خطابت عروج پر تھا اور اقبال کے اشعار اس طرح ان کی زبان پر رواں تھے جیسے چڑھتا دریا۔ پروفیسر پروین خان نے بھی بڑی نفاست سے گفتگو کو سمیٹا۔ اس کتاب کا فلیپ میں نے قلم بند کیا تھا اور صفیہ اسحاق کے کاموں پر روشنی ڈالی تھی۔ تقریر میں میرا روئے سخن سراسر اقبال کی طرف تھا۔ اقبال جیسی بلند پایہ شخصیت اور مجید نظامی صاحب کی مہربانیوں اور قدر دانیوں کی طرف میرا رحجان غالب رہا۔ یہ مجید نظامی کی بڑی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ علم کی بھی قدر کرتے ہیں اور صاحب علم کی بھی۔ شاید اسی لئے یہ بھرپور تقریب عمل میں آئی تھی۔ مجھے بچپن سے ہی اقبال سے عشق رہا ہے۔ اقبال کی مشہور زمانہ نظمیں جگنو، شمع اور شاعر، شکوہ جواب شکوہ، چاند اور تارے، مسجد قرطبہ نصاب کا حصہ رہی ہیں۔ اس طرح اقبال سے ملاقات جہاں مجھے سکول کے زمانے میں نصابی کتابوں میں درج اشعار سے ہوئی۔ وہاں اپنی تقاریر میں اقبال کے پُرجوش اشعار یاد کرنے اور سمجھنے سے ہوئی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ خلیفہ عبدالحکیم جنہوں نے کہا تھا کہ ”اقبال قرآن کا شاعر ہے اور شاعر کا قرآن ہے“۔ لیکن ہم نے قرآن کو بھی طاقِ نسیاں کر دیا اور اقبال کی بھی وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔ اقبال فراموشی کا انجام یہ ہے کہ آج ہم کھسیانے ہو کر سہمے ہوئے انداز میں کہتے ہیں کہ جی ہم آزاد قوم ہیں؟ لیکن کیا ہماری پالیسیاں آزاد ہیں؟ کیا ہم واقعی آزاد قوم ہیں؟ کیا ہمارے فیصلے، ہمارے اصول، ہمارے قوانین آزاد ہیں؟؟ کیا ہماری حکومت ہماری زمین آزاد ہے؟ کیا ہماری روحیں، ہمارے دل، ہمارا ضمیر آزاد ہے؟ افکارِ اقبال پر عمل نہ کرکے آج صورت یہ ہے کہ آج ہم صرف کرپشن، رشوت، سفارش، منافقت میں آزاد ہیں، اپنی آزادی گروی رکھنے میں آزاد ہیں۔ قومی خزانے میں نقب لگانے میں آزاد ہیں۔ اپنے بھائی بندے امریکہ کو دینے میں آزاد ہیں۔ اجتماعی نعرے لگانے، جلسے جلوس اور توڑ پھوڑ میں آزاد ہیں، جوڑ توڑ میں آزاد ہیں،سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں آزاد ہیں، چربے اور نقالی میں آزاد ہیں، جعلی ڈگریاں اور جعلسازیوں میں آزاد ہیں۔ بس یہی ہے ہماری آزادی فکر اور مطمع نظر!! پورا ملک اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا ہے۔ ہر آدمی لوٹ لینا چاہتا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی محنت، محبت اور حقیقت پر یقین نہیں رکھتا۔ ہم اقبال دوستی تو کیا نبھاتے، اقبال فہمی کا حق نہ نبھا سکے۔اگر ہماری قوم نے اقبال کے پیغام کے معنی سمجھ لئے ہوتے تو آج سپر پاور ہوتے کیونکہ اس میں خودی اور خود داری کا راز مضمر تھا۔ امید یقین اور کامیابی کا رستہ تھا۔ ہماری قوم اس قدر ناقدری، بے حس، خود غرض اور تصنع پسند کیوں ہے.... اپنی آزادی، اپنے اثاثوں، اپنی مٹی اور اپنے جوہر قابل کی قدر کیوں نہیں کرتی۔ اپنی ناقدری کی فطرت کو اپنے اندر سے کھرچ کر پھینک کیوں نہیں دیتی....؟؟؟ کسی کے مرنے کے بعد ہی قدر کیوں کرتی ہے۔ کسی کے جانے کے بعد ہی کیوں ہوش میں آتی ہے۔ ہماری قوم وقت پر نہیں جاگتی.... یہی تو گلہ ہے اور یہی المیہ ہے۔ کیا حضرت امام حسینؓ کی شہادت کافی نہیں؟؟؟
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی