نوائے غم

Monday 19 March 20120 comments

نوائے غم


زندگاني ہے مري مثل رباب خاموش
جس کي ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبريز آغوش
بربط کون و مکاں جس کي خموشي پہ نثار
جس کے ہر تار ميں ہيں سينکڑوں نغموں کے مزار
محشرستان نوا کا ہے اميں جس کا سکوت
اور منت کش ہنگامہ نہيں جس کا سکوت
آہ! اميد محبت کي بر آئي نہ کبھي
چوٹ مضراب کي اس ساز نے کھائي نہ کبھي
مگر آتي ہے نسيم چمن طور کبھي
سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھي
چھيڑ آہستہ سے ديتي ہے مرا تار حيات
جس سے ہوتي ہے رہا روح گرفتار حيات
نغمہ ياس کي دھيمي سي صدا اٹھتي ہے
اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتي ہے
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
ميري فطرت کي بلندي ہے نوائے غم سے
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی