مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھوڑ دے

Monday 19 March 20120 comments

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھوڑ دے


مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھوڑ دے
نظارے کي ہوس ہو تو ليلي بھي چھوڑ دے
واعظ! کمال ترک سے ملتي ہے ياں مراد
دنيا جو چھوڑ دي ہے تو عقبي بھي چھوڑ دے
تقليد کي روش سے تو بہتر ہے خودکشي
رستہ بھي ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھي چھوڑ دے
مانند خامہ تيري زباں پر ہے حرف غير
بيگانہ شے پہ نازش بے جا بھي چھوڑ دے
لطف کلام کيا جو نہ ہو دل ميں درد عشق
بسمل نہيں ہے تو تو تڑپنا بھي چھوڑ دے
شبنم کي طرح پھولوں پہ رو ، اور چمن سے چل
اس باغ ميں قيام کا سودا بھي چھوڑ دے
ہے عاشقي ميں رسم الگ سب سے بيٹھنا
بت خانہ بھي ، حرم بھي ، کليسا بھي چھوڑ دے
سوداگري نہيں ، يہ عبادت خدا کي ہے
اے بے خبر! جزا کي تمنا بھي چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
ليکن کبھي کبھي اسے تنہا بھي چھوڑ دے
جينا وہ کيا جو ہو نفس غير پر مدار
شہرت کي زندگي کا بھروسا بھي چھوڑ دے
شوخي سي ہے سوال مکرر ميں اے کليم!
شرط رضا يہ ہے کہ تقاضا بھي چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز ميں
اقبال کو يہ ضد ہے کہ پينا بھي چھوڑ دے
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی