قائد اعظم ایک نڈر لیڈر...............شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday, 18 March 20120 comments

قائداعظم نے کہا'' مولانا اب تو ایک ہی دعا ہے جو قدم پاکستان بنانے کے لیے اٹھاہے اللہ اسے قبول فرمائے''
 
ہمارے قائداعظم محمد علی جناح جن کے عزم وہمت اور بے پناہ قوت ارادی کی بدولت ہمیں آزادی جیسی نعمت عظمیٰ نصیب ہوئی اور جن کی مسلسل تگ ودو کی بدولت اللہ تعالی نے ہمیں یہ پاک وطن عطا فرمایا 25دسمبر 1876ء کو کراچی کے ایک محلے کھارادر میں پیدا ہوئے ۔

انہوں نے 72 برس تک عزم وہمت اورمحنت واستقلال کی زندگی گزاری ۔ وہ جس مقصد کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں آئے تھے اسے تکمیل کی منزل تک پہنچا کر 11ستمبر 1948ء کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے ۔

ان کے یوم پیدائش کے موقع پر ان کے سیرت وکردار کی چند جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں ۔

رسول اکرم ۖسے محبت 
جس زمانے میں قائداعظم انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ۔ اس زمانے میں لندن میں قانون کی اعلیٰ تعلیم دینے والے چار بڑے ادارے تھے ۔ 
١)مڈل ٹمپل
٢)انٹرٹمپل
٣)گریزان
٤)لنکنزان 
قائداعظم نے لنکنزان میں داخلہ لینا پسند کیا ۔ لیکن کیوں ؟اس کی وجہ انہوں نے خود 1947ء میں کراچی میں بار کے ایک اجتماع میں یوں بیان کی ۔ 
''ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت محبت تھی ۔ ایک دن میں اتفاقاًلنکنزان گیا اور میں نے اس کے دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاا سم مبارک لکھا ہوا دیکھا ۔ میں نے فوراً''لنکنزان ''میں داخلہ لے لیا کیونکہ اس کے صدر دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک دنیا کے عظیم قانون سازوں میں سرفہرست لکھا تھا۔ 

خوداعتمادی
1890ء میں بیس سال کی عمر میں قائداعظم لندن سے امتیاز کے ساتھ بیرسٹری کاامتحان پاس کر کے کراچی واپس آئے تویہیں بیرسٹری کا آغاز کیا ۔ لیکن یہ جگہ چھوٹٰی تھی اور ان کاعزم وحوصلہ وسعت کا طالب تھا ۔ چنانچہ وہ بمبئی چلے گئے اور وہاں اپنی ذہانت محنت اور قانونی ذکاوت سے بہت جلد دلوں پر سکہ جمالیا ۔ 

حکومت کے سیکرٹری قانون نے انہیں پندرہ سو روپے مہینے کے مشاہرے پر پریسڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے پر مامور کرنے کی پیشکش کی لیکن قائداعظم نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ میں اتنی رقم ایک دن میں کمانے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ اپنی خوداعتمادی اور حوصلہ کی بلندی سے انہوں نے اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا۔ 

اصول پرستی
بمبئی میں ایک مشہور تاجر حاجی عبدالکریم تھے جنہیں کسی سنگین الزام میں عدالت میں طلب کیا گیا ۔ وہ قائداعظم کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ وہ مقدمے کی کتنی فیس لیں گے ؟قائداعظم نے جواب دیا 
''پانچ سو روپے روازنہ ''حاجی صاحب محتاط آدمی تھے پوچھا ''مقدمہ کتنا عرصہ چلے گا ؟میرے پاس پانچ ہزار روپے ہیں آپ یہ ساری رقم بطور معاوضہ قبول کرلیں ۔ قائداعظم نے فرمایا ''میں یہ رقم قبول نہیں کروں گا میری فیس پانچ سو روپے روزانہ ہے یاتو آپ اس فیس پر مجھے اپنا وکیل کریں یا کوئی اور وکیل تلاش کریں ۔ حاجی صاحب نے ان کی شرط منظور کرلی اور قائداعظم نے تین روز میں مقدمہ جیت لیا ان کی کل فیس پندرہ سو روپے بنی جو انہوں نے خوشدلی کے ساتھ قبول کی ۔ 

حاجی صاحب نے زیادہ رقم دینا چاہی تو قائداعظم نے انکار کر دیا ۔ 

اسلامی کریکٹر
قائداعظم کی شادی محترمہ رتن بائی سے ہوئی جن کا تعلق ایک پارسی خاندان سے تھا لیکن قائداعظم نے ان سے اس وقت تک شادی نہ کی جب تک وہ مسلمان نہ ہوگئیں ۔ انکے بطن سے ایک بیٹی (وینا ) پیدا ہوئی ۔ قائداعظم کو ''وینا ''سے بہت محبت تھی ۔ لیکن والدہ کی وفات کے بعد وینا کی پرورش ننھیال میںہوئی ۔جنہوں نے اس کی شادی ایک پارسی نژاد نوجوان سے طے کر دی۔ 

قائداعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے مولانا شوکت علی سے کہا کہ جس طرح بھی ہو ان کی بیٹی کو اسلام پر قائم رکھا جائے لیکن مولانا ، قائداعظم کی اس خواہش کی تکمیل میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ قائداعظم کو اس بات کا بہت رنج ہوا۔ 

گاندھی کی روحانی قندیل 
قائداعظم فرمایا کرتے تھے کہ غلطی کا اقرار شرح صدر سے کرلینا چاہئے ۔ لیکن مسٹر گاندھی اس کے قائل نہ تھے ایک دفعہ گاندھی اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے تو انہوں نے اخبار نویسوں کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے روحانی قندیل نے انہیں اس وعدہ خلافی پر مجبور کیا ۔

قائداعظم کوجب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ آخر یہ شخص ایمانداری سے کیوں یہ تسلیم نہیں کر لیتا کہ اس سے غلطی ہو سکتی ہے ۔

طریق کارکا فرق 
ایک بار قائداعظم نے مسٹر گاندھی سے کہا آپ میدان سیاست میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگ کس بات سے خوش ہوں گے پھر اس کے مطابق اقدام کرتے ہیں لیکن میرا طریق کاراس کے برعکس ہے میں پہلے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا بات درست اور مناسب ہے ۔ پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہوں بالاخر لوگ میری آواز پر لیبک کہتے ہیں اور مخالفت ہو بھی تو رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے ۔ 

پاکستان غریبوں کے لئے ہے 
1946ء میں کلکتہ میںمسلم لیگ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ''میں اب بوڑھا ہو چکاہوں اور میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا اتنا ہے کہ میں باقی زندگی آرام سے بسر کر سکتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہا ہوں اور سارے ملک میں بھاگا پھرتا ہوں ۔ آخر یہ کس لئے ؟ یادرکھو میں یہ تکلیف سرمایہ داروں کیلئے نہیں بلکہ صرف غریب مسلمانوں کی خاطر اٹھارہا ہوں ''انہی دنوں کلکتے میںایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے ارشاد فرمایا ۔ 
''پاکستان قائم ہو جانے کے بعد ہم اس بات کی انتہائی کوشش کریں گے کہ وہاں ہر شخص کی کم ازکم آمدنی اتنی ضرور ہو کہ وہ مہذب انسانوںکی طرح اپنی زندگی گزار سکے ۔ کسی مسلمان کو فضول خرچ نہیں ہوناچاہئے ۔

ایک دفعہ جب قائداعظم لندن سے بمبئی روانہ ہورہے تھے تو ہوائی اڈے پر انہیں ایک مخلص بوڑھا مسلمان ملا جو لندن کے مشرقی حصے سے ہوائی اڈے تک محض اسلئے آیا تھاکہ آپ سے مصافحہ کر سکے ۔ ہوائی اڈہ پر کوئی شخص اسے قائداعظم کے پاس لے گیا اور انہیں بتایا کہ یہ کئی پونڈ خرچ کر کے ٹیکسی میں آیا ہے ۔ قائداعظم نے اس سے ہاتھ توملا لیا لیکن اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا ۔ 
یاد رکھو !''مسلمان کو فضول خرچ نہیں ہونا چاہئے ۔ 

تفرقہ بازی سے پاک مسجد 
قائداعظم فرقہ بندی سے سخت متنفر تھے ۔ 1946ء میں جب انہوں نے لندن کے مشرقی حصہ میں نمازجمعہ ادا کرنا چاہی تو سوال پیدا ہوا کہ وہ کس مسجد میں نماز کے لئے جائیں ۔ قائداعظم نے فرمایا ....میں ایسی مسجد میں جانا چاہتا ہوں جو کسی فرقہ سے خاص نہ ہو اور جس میں غریب لوگ نماز پڑھتے ہوں ۔ چنانچہ ایک ایسی ہی مسجد منتخب کی گئی جہاں مجمع غریب مسلمانوں پر مشتمل تھا ۔ مسجد میں لوگوں نے انہیں دیکھتے ہیں ''اللہ اکبر ''کے نعرے لگائے اور صفیں کی صفیں خالی کردیں تاکہ وہ سب سے اگلی صف میںبیٹھ سکیں ۔ لیکن قائداعظم نے فرمایا ''میں دیر سے آیا ہوں اس لئے اگلیصف میں بیٹھنے کا حق نہیں ''میں صرف مسلمان ہوں ۔

کانپور میں کسی ''احراری ''نے قائداعظم سے سوال کیا ''آپ شعیہ ہیں یا سنی ؟''قائداعظم نے فرمایا کیا تم بتا سکتے ہوکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا تھے شعیہ یاسنی ؟ احراری بولا ۔ وہ تو مسلمان تھے ۔ قائداعظم نے کہا ''شاباش ! تو پھر میں بھی مسلمان ہوں صرف مسلمان ''

قائداعظم نے 1941ء کی مردم شماری کے موقع پر مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی ذات اورعقیدہ صرف مسلمان ہی لکھوائیں ۔ مسلم یتیم خانہ بمبئی کے ایک بہت بڑے سیٹھ نے سولہ لاکھ روپے کی لاگت سے ایک یتیم خانہ تعمیر کرایا وہ چونکہ خود ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے یتیم خانہ کو بھی خاص فرقہ کیلئے مخصوص کیا ۔ سیٹھ نے یتیم خانہ کے افتتاح کیلئے قائداعظم سے درخواست کی تو انہوں نے فرمایا ۔ اگر یہ مسلم یتیم خانہ ہے تو اس میںہر یتیم مسلمان کو داخلہ کی اجازت ہونی چاہئے ۔ اگر آپ یہ کر سکتے ہیں تو میں اس افتتاح کیلئے تیار ہوں ورنہ نہیں ۔ یہ بات سیٹھ کی سمجھ میں آگئی ۔ اس نے ضوابط میں تبدیلی کر کے اسے تمام مسلمان یتیم بچوں کیلئے وقف کر دیا قائداعظم کو معلوم ہواتو آپ اس کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے۔ 

اللہ سے تعلق 
مولانا حسرت موہانی ایک بار بمبئی گئے تو قائداعظم سے ملنے کے لئے انکی کوٹھی بھی گئے مولانا سے کون واقف نہ تھا۔ قائداعظم کے سیکرٹری نے بڑے ادب سے گزارش کی آپ تشریف رکھیں ابھی قائداعظم کی خدمت میں آپ کی آمد کی اطلاع بھجواتا ہوں ۔ مولانا ایک کرسی پر بیٹھ گئے تھوڑی دیر میں بلاواآجانا چاہئے تھا لیکن کافی وقت گزر گیا لیکن بلاوانہ آیا ۔ مولانا دیر تک پہلو بدلتے رہے پھر یکبارگی اپنی کرسی سے اٹھتے اور ٹہلنے لگے برآمدے میں کبھی ایک طرف جاتے کبھی دوسری طرف ۔ 

ٹہل ٹہل کر وقت گزاررہے تھے کہ اتفاقاًہوا کاایک تیز جھونکا آیا اور کمرے کا پردہ اڑالے گیا ۔ اب جو مولانا کی نظر اٹھی تو جم کر رہ گئی قائداعظم مصلیٰ بچھائے مناجات میں مصروف تھے ۔ انکا سر سجدے سے اٹھتا ہی نہ تھا ۔ مولانا خود بھی اللہ والے تھے اور رکوع وسجود کی لذت سے خوب واقف تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ قائداعظم کا سر سجدے سے اٹھتا ہی نہیں تو اپنی نشت پر آبیٹھے ۔ اب ان کی سوچ کا رخ کسی اور طرف تھا ۔ اسی حال میں بیٹھے تھے کہ بلاوا آیا اسی کمرے میں پہنچے جہاں سجدے ریزی کا منظر دیکھا تھا بیٹھتے ہی قائداعظم سے بولے ۔ ''اللہ تعالیٰ سے تعلق کا جو منظر میں نے ابھی دیکھا ہے اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے اور پاکستان بن کر رہے گا ۔ 

قائداعظم نے کہا مولانا!اب تو ایک ہی دعا ہے کہ جو قدم پاکستان بنانے کیلئے اٹھا ہے اللہ کریم اسے قبول فرمائے اور کامیابی سے ہمکنار کرے ۔ قائداعظم کی یہ دعا جو سجدہ ریزی کی حالت میں دل کی گہرائیوں سے نکلی قبول ہوئی اور 27رمضان المبارک 1366ھ مطابق 14اگست1947ء شب قدر کی مقدس رات میں پاکستان بن گیا ۔ الحمد اللہ ذالک ۔

قائداعظم کی سیاسی بصیرت 

پاکستان قائداعظم کی سیاسی بصیرت کا زندہ کارنامہ ہے ۔ ایک دفعہ وجے لکشمی پنڈت نے ان کی سیاسی بصیرت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔ 
''مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد بھی ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔ ''

قائد اعظم وقت کا ضیاع کسی قیمت پر بھی برداشت نہ کرتے تھے قیام پاکستان کے بعد سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں آپ بحیثیت مہمان خصوصیی ٹھیک مقرر وقت پر تشریف لائے ۔ لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان اور دوسرے وزراء اور اعلیٰ حکام بروقت نہ پہنچے جس کی وجہ سے اگلی قطار کی کئی ریزرو کرسیاں خالی تھیں۔ یہ دیکھ کر قائد اعظم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آپ نے کاروائی شروع کرنے کا حکم کے ساتھ ہی فرمایا؛
تقریب گاہ میں موجود تمام خالی کرسیاں اٹھا لی جائیں تا کہ جو لوگ بعد میں آئیں انہیں کھڑا رہنا پڑے اور آئندہ انہیں پابندی وقت کا خیال رہے۔ 

فوراً حکم کی تعمیل کی گئی تقریب کے شروع ہونے کے کچھ دیر بعد جب وزیراعظم لیاقت علی خان اور دوسرے وزراء آئے تو سب کھڑے رہے اور کسی کو ان کے لیے کرسی لانے کی جرات نہ ہوئی۔ اس واقعے کے بعد سب وزیروں کو کان ہو گئے اور وہ سرکاری تقریبات میں وقت پر پہنچنے لگے۔ 

کفایت شعاری
قائداعظم کفایت شعاری کے اصول کی سختی کیساتھ پابندی کرتے تھے اگر کوٹھی میں بلا ضرورت بتیاں جل رہی ہوتیں۔ تو آپ انہیں بجھا دیتے اگر کسی کے ہاں مہمان ہوتے اور وہاں ضرورت سے زیادہ بتیاں جل رہی ہوتیں تو فالتو بتیاں گل کرا دیتے۔ یہی حال آپ کا پریذیڈنسی میں رہا جہاں آپ بحیثیت گورنر جنرل رہائش پذیر تھے فرماتے کہ روپیہ ضائع کرنا گناہ ہے اور اگر وہ عوام کا روپیہ ہو تو گناہ کبیرہ ہے۔ 

خرچ میں احتیاط
وفات 11 ستمبر 1948 سے چند روز بیشتر ان کے معالج کرنل الہٰٰی بخش نے کہا 
یہ سلکی لباس جو آپ نے پہن رکھا ہے آپ کے لیے مضر ہے آپ کو سردی لگ جانے کا خطرہ ہے۔ اس پر قائد اعظم نے کہا 
فی الحال تو میرے پاس یہی سلکی لباس ہے لیکن میرا ارادہ ہے کہ کھدر کے کپڑے سلوا لوں۔ ڈاکٹر نے ان سے اتفاق نہ کیا اور کہا
سر ٹھنڈے کپڑوں سے کام نہیں چلے گا آپ کو گرم لباس کی ضرورت ہے میں نے آپ کی اجازت کے بغیر گرم کپڑے کا آرڈر کراچی بھیج دیا ہے۔ 
یہ سن کر قائداعظم ناراض ہوئے اور فرمایا
ڈاکٹر: آئندہ خرچ کے معاملے میں محتاط رہنا 
پھر کہا:
ڈاکٹر: میری نصیحت یاد رکھو: جب بھی کسی چیز پر روپیہ صرف کرو تو یہ اچھی طرح سوچ لو کہ اس خرچ کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ 

احساس فرض اور نظم و ضبط
ڈاکٹر الہیٰ بخش کا بیان ہے
وفات سے چند روز قبل جب قائداعظم کو سٹریچر پر ڈال کر طیارہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو جہاز کے عملہ نے انہیں سیلوٹ کیا ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ قائداعظم نے فی الفور اس سیلوٹ کا جواب دیا۔ حالانکہ وہ اس قدر ضعیف و ناتواں ہو چکے تھے کہ انہیں کروٹ لینا بھی محال تھی۔ میں سوچنے لگا آخر یہ کیونکر ممکن ہوا کہ انہوں نے قریب المرگ ہونے کے باوجود سیلوٹ کا جواب دینے کے لیے اپنی تمام قوت مجتمع کر لی۔ میرے لیے یہ ایک استعجاب انگیز اور ناقابل فراموش لمحہ تھا۔ جس سے ان کے احساس فرض اور نظم و ضبط کا اظہار ہوتا ہے۔ 


بلاشبہ وہ ایک عظمیم اور باعمل مسلمان قائد تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کا جو پیغام دیا۔ اس پر خود عمل بھی کر کے دکھایا ۔ اللہ ان کی قبر پر ہمیشہ اپنی رحمتوں کی بارش برسائے اور پاکستانی قوم کو ان کے فرمودات پر عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ 
بشکریہ(شکیل احمد چوھان
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی