ہنر کے کمال کا معیار...............شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday, 18 March 20120 comments

ہنر کے کمال کا معیارایک فن کار کے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اہل نظر ہوتا ہے‘ حسن کا ذوق رکھتا ہے اور حسن کو غیرحسن سے ممیز کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ایک فن کار خود فن کی حقیقت اور اس کے مقصد سے ناآشنا ہو تو ہم اسے اہل نظر کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہنر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کی سچی محبت کا ایسا سوز پیدا ہو جو اس کو زندہ جاوید بنا دے۔ یہ مقصد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ ہنر کی تخلیق اس قسم کی ہو کہ وہ خدا کی محبت کی نشوونما کر سکے۔ اگر فنکار غیرحسن کو حسن بنا کر پیش کرے تو اس کا فن بدن کی اس زندگی میں جو شرر کی طرح ایک دو لمحہ کے لئے ہی ہوتی ہے‘ کسی قدرلذت یا سرور کا باعث ہو تو ہو لیکن نہ تو وہ خدا کی محبت کی تربیت کر سکے گا اور نہ ہی روح کی ابدی زندگی اور اس کی محبت کی ابدی سوز کے لئے ممد و معاون ثابت ہوسکے گا۔ لیکن بدن کی اس نفس یا دو نفس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے کہ فنکار اپنے فن کو اس کا غلام بنا دے۔ ابرنیساں کا قطرہ اگر کسی صدف میں جا پڑے تو وہ گہر بن جاتا ہے۔ فن کار کا جوہر وہ قطرہ نیساں ہی سہی جو اس کے شاہکار کے صدف کو حسن کے گوہر تابدار سے پر کرتا ہے لیکن وہ صدف یا وہ گوہر جو قطرہ نیساں کے کمالات کی تخلیق ہونے کے باوجود دریا میں تلاطم پیدا نہ کر سکے دریا کے لئے بے حقیقت ہے۔ اسی طرح سے فن کا ر وہ شاہکار اور فن کا وہ حسن جو قوم کے اندر کوئی حرکت پیدا نہ کر سکے قوم کے لئے بے معنی اور بے کار ہے۔ باد سحر سے چمن میں پھول کھلتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ شاعر کی شاعری اور گانے والے کا گانا دونوں چمن قوم کے لئے باد سحر کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن وہ باد سحر بیکار ہے جس سے قوم کا گلستان شگفتہ ہونے کی بجائے مرجھا جائے۔ ایک ایسی قوم جو حالت جمود میں ہو جب تک اس کیلئے کسی معجزہ سے فکر و عمل کی نئی راہیں نہ کھل جائیں وہ انسانیت کی منزل مقصود کی طرف حرکت نہیں کر سکتی۔ ہنر ایسا ہونا چاہئے جو عصائے کلیمی کی طرح ہو جس کی ایک ضرب سے بے آب و گیاہ بیابان میں پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے تھے جو ایک معجزہ کا حکم رکھتا ہو اور ایک حیرت انگیز فکری انقلاب سے قوم کو ارتقاء کے کھوئے ہوئے راستوں پر ڈال سکتا ہو۔ اقبال کہتا ہے:اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظرکیامقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیاجس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیاشاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو‘
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحرکیابے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی