علامہ اقبال ؒ .............شکیل احمد چوھان

Sunday 18 March 20120 comments

علامہ اقبال ؒ جو شاعرِ مشرق، حکیم الامت کے القابات سے ہماری اَدبی اور قومی تاریخ کے سرخیل ہیں نے خطبہ الہٰ آباد میں جو کہا وہ مطالبہ پاکستان کی بنیاد بنا ۔ جس میں خواب دیکھا گیا تھا کہ ایک ایسی سلطنت معرضِ وجود میں لائی جائے جہاں مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اپنی معاشرت کو قائم ودائم رکھ سکیں ۔ اِس مضبوط بنیادی اور اساسی طاقتور دلیل نے سب مسلمانانِ بر صغیر کو یکجا کر دیا اور پاکستان ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے خطے کے طور پر دُنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ علامہ اقبالؒ کے نظریہ قومیت کا ایک نفسیاتی محرک مدینے سے بچھڑے ہوئے آہو کر بھٹکنے سے بچانا اور سوئے حرم لے چلنا تھا چنانچہ زمانے ، ماحول اور بدلتے رویوں میں مسلمانوں کے کردارکے حسن و جمال کو محفوظ
رکھنے کے عمل کو انہوں نے ریاست کی اہم ذمہ داری قرار دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

ہنود و نصاریٰ کے مذاہب میں جو احکام نہ ہیں وہ اُنہوں نے اپنا لیے ہیں ۔ انجیل مقدس اور گیتا کو ایک جانب رکھ کے اخلاقی بے راہ روی کے جو مظاہرے نظر آ رہے ہیں وہ بے حد بھیانک ہیں ۔ مثلاً بھارتی حسیناؤں کا نہ صرف مقابلہ ء حسن میں شریک ہو کر عریانی کی حدیں پار کرنا بلکہ اسے اپنے لیے فخر سمجھنا۔ اسی طرح بھارت اور یورپی ممالک میں ’’ خاموش فلموں‘‘ کی یلغار یہ سب اُن کے مذاہب کے برعکس ہیں ۔ لیکن اسے اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے معاشرتی مسائل بھی قومی شناخت کے حوالے سے ہیں ۔ اس کا ایک ’’ کریڈٹ‘ ‘ تو حکمرانوں کو جاتا ہے مثلاً صدر سکندر مرزا ، جنرل یحیٰ خان کے ادوار میں عوام کو نفسیاتی طو رپر اخلاقی گراوٹ کی جانب لایا گیا پھر جب جنرل ضیاء الحق کا دَور آیا تو اسلامائزیشن کے ذریعے اگرچہ قوانین کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش ہوئی مگر ضیاء الحق اور اُن کے رفقاءِ کا رویڈیو کیسٹس کے کلچر سے قطعی طور پر لا علم رہے جو گھروں کے اندر داخل ہو گیا ۔ بعد ازاں جسے ’’ ڈش کلچر‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے ۔ اگرچہ آج کیبل پر حکومتی کنٹرول موجود ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہماری معاشرت بچ جائے گی لیکن ایسا وثوق سے کہنا از حد مشکل ہے ۔ کچھ لوگ اس کی وجہ غربت کا اضافہ بھی بتاتے ہیں ۔ بلا شبہ اسلام کے شارع ؐ کی تعلیمات بھی یہی بتاتی ہیں کہ جس معاشرے کے ایک گھر کے ایک دروزا ے سے غربت داخل ہوتی ہے تو دوسرے دروازے ایمان رخصت ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ ہم اِس سلسلے میں معروف افسانہ نگار غلام عباس کے افسانے کو تھوڑا سا زیرِ بحث لاتے ہیں ۔ فحاشی کے چند گھروں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کا بلدیہ کی طرف سے حکم آتا ہے چنانچہ وہ لوگ ترکِ سکونت کر کے چلے جاتے ہیں ۔ بلدیہ حکم دے کر بھول جاتی ہے ۔ لیکن جن شوقین اور رنگیلا مزاج افراد کا اِس جانب آنا جانا رہتا تھا وہ اپنی عادت سے باز نہیں آئے چنانچہ وہ ترکِ سکونت کر کے جانے والوں کی جانب آنا جانا جاری رکھتے ہیں ۔ ان کی آمد و رفت کی بنا پر بزاز ، قصاب ، ہوٹل والا ، جنرل سٹور اور دیگر دکاندار حتیٰ کہ صراف تک وہاں کاروبار شروع کر دیتے ہیں جو خوب چمک اُٹھتا ہے ۔ ایسے افراد روزانہ کے سفر سے تنگ آ کر وہیں مکانات بنا لیتے ہیں ۔ آبادی بڑھتی چلی جاتی ہے اور پھر بلدیہ کے انتخابات ہوتے ہیں تو پہلے اجلاس میں یہ قرار داد منظور کرلی جاتی ہے کہ فحاشی کے چند گھروں کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے ۔ گویا ہمارے رویے جب تک نہیں بدلتے اس وقت تک ہم خود کو نہیں بدل سکتے ۔ غربت چونکہ بے بس اور مجبو رکر دیتی ہے اِس لیے ایسے عالم سے پناہ مانگی جائے اور یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کو ضروریات زندگی تک میرٹ اور محنت پر رسائی ممکن بنائے۔ جب محتاجوں ، یتیموں ، بیواؤں اور دیگر بے کس و لاچار افراد کی اسلام کے عظیم اصول زکوٰۃ اور عشر کی مد سے بلا امتیاز اور منصفانہ مدد کی جائے ۔ تاکہ ایمان کی رخصتی کا جواز پید انہ ہو جس کا براہ راست جواب دہ یقیناًعلاقے کا منتظم ، منتخب نمائندہ اور با اختیار و صاحبِ ثروت افراد بنتے ہیں جنہیں حشر کے اعلان کے بعد اِن سوالات کا جواب دینا ہو گا چاہے وہ اعمالِ صالحہ کے بلند درجے تک بھی پہنچ چکے ہوں ۔ ضیاء الحق کے دور میں 18 موشن پکچرز کے جتنی تعداد میں مقدمات درج ہوئے اس سے کہیں زیادہ VCRکے ذریعے فحاشی پھیلی۔ شہروں میں منی سینما گھروں کی یلغار رہی ۔ دیہاتوں میں باقاعدہ ایسے مقامات پر اخلاق باختہ نیلی پیلی فلمیں چلتی رہیں ۔ ضیاء الحق کے دور کا تحفہ VCRاور فحش کیسٹس پر انتظامیہ نے بھی خوب عیش کیے اور فراوانی سے رشوت وصول کی۔ ساتھ ساتھ یہ فحش فلمیں نسلوں کو اداس کرنے سے زیادہ ذہنی اور جنسی بیماریوں کی طرف لے آئی ۔ اِسی ردِ عمل نے بعد ازاں دیگر ادوار میں بھی اپنی زہریلی بڑھوتری سرطان کی طرح جاری رکھی ۔ ہم اِس کی مثال یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر بیرونی جلد پر ایک پھوڑا پید اہو جائے تو اس کا علاج اینٹی بائیو ٹک سے ممکن ہے اگر یہی پھوڑا جسم کے اندر ہو تو وہ سرطان کی طرح جسم میں پھیل کر جیتے جاگتے انسان کو چلتی پھرتی لاش بنا دیتا ہے ’’ اخلاقیات ‘‘ کو یوں VCRکلچر نے سرطان کی طرح متاثر کیا ۔ آج ہم رویوں کی وجہ سے معاشرتی گراوٹ کی جانب جا رہے ہیں اور علامہ اقبالؒ کا مذکورہ شعر ہماری اُجڑتی تہذیب و معاشرت کے لیے ایک اہم سبق بن چکا ہے۔ جو چیزیں وہ وی سی آر پر سلور سکرین پر دکھائی جاتی ہیں معصوم اذہان ان کو حقیقی زندگی میں کس حد تک Avoidکریں گے یہی صورتِ حال اشمیت کے ساتھ وینا ملک کے حوالے سے اُبھری تو وینا ملک نے بڑھک ماری کہ ہماری ایلیٹ کلاس یہی کچھ کرتی ہے۔ وینا ملک کے اس بیان کے پسِ پردہ جو حقیقی سفاکی ہمارے معاشرے کی ایلیٹ کلاس اور اس سے ہوتی ہوئی لوئر مڈل اور مڈل کلاس تک پہنچتی ہے وہ بھائیوں ، والدین اور شوہروں کے لیے بے حد المناک ہے ۔ معاشرتی جنگل میں میمنے بھیڑئیے بن جائیں تو تہذیب کا ایک المناک دور تاریخ کے صفحات پر کالک کی طرح پھیل جاتا ہے ۔ سوچئے!اور یہ بھی سوچئے کہ ہم آج تک اِس سوچ سے دُورکیوں ہیں جس پاکستان کے لیے ہم نے عزتیں قربان کیں اُس کے بلوائی کا کردار ہمارے اندر کیسے آگیا ؟ اخلاقی بحران کے اس دَور میں ’’ اخلاقیات‘‘ کو بطور مضمون پرائمری ، مڈل ، میٹرک ، انٹر میڈیٹ، گریجو ایشن اور ماسٹر ڈگری لیول تک شامل کرنا کیوں ضروری ہے اس کی خبر اخبارات میں کرائم سٹوریز سے لے جا سکتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی