حامدی کاشمیری
اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکا رکااظہا رنثر میں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں بھی کیا ۔فلسفہ چونکہ منطقیت اور عقلیت پر انحصار رکھتاہے ۔ اس لئے نثری اسلوب اس کے لئے موزون ہوسکتاہے ۔ چنانچہ ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید‘‘ میں ان کانثری اظہار ان کے افکار کی مطلوبہ ترسیلیت کرتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیاشاعری میں ان کے افکار شعری پیرایۂ اظہار سے مطابقت قائم کرسکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ روایتی فلسفیو ں اور متکلمین کی طرح اقبال محض ایک فلسفی نہیں بلکہ ایک مسلمہ تخلیقی فنکار بھی ہیں، اس لئے ان کا دائرہ کار ماقبل کے فلسفیوں سے مماثل ہونے کے باوصف مختلف ہے ۔ اس بظاہر تناقض کو یوںحل کیا جاسکتاہے کہ اقبال نے ایک روایتی فلسفی کی طرح زندگی ، کائنات اور خدا جیسے ازلی مسائل پر اکاڈمک انداز میں تفکر نہیں کیا بلکہ فکری اُپج اور تجسس کو اولیت دی ۔ انہوں نے اپنی ذہنی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور تمام عمرشعر کہتے رہے ، انہوں نے شعری عمل کے دوران اپنی فکری بصیرت سے اشیاء ومظاہر کی حقیقت کومنکشف کرنے کی سعی کی ، اس طرح سے یہ ان کا وجدانی شعور ہے جو اُن کی شاعری سے منسوب کرنے کے ساتھ ہی کائناتی مسائل پر تدبروتفکر کرنے پر راغب کرتاہے اور یہ ان کے وجدانی شعور کی وسعت طلبی ہے جو انہیں ماقبل کے فلسفی شعراء پر سبقت لے جانے کی ضامن ہے ، غالب وحدت الوجودی تصور سے آگے نہ بڑھے جبکہ اقبال نے وحدت الشہود کے نظریئے کی صورت میں اپنی پیش رفت کاثبوت دیا۔ یہ تناقص یہ کہہ کر بھی دور کیا جاسکتاہے کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ تصورات محض علم واکتساب سے اپنے اوپراوڑھے نہ تھے ، اگر ایسا ہوتا تو ان کی شاعری کا استناد خطرے کی زد میں آتا ، کیونکہ ایسی صورت میں ان کا تفکر محض تعقلی عمل ہوکے رہ جاتا ، جوشخصیت کی جامعیت پر حاوی نہیں ہوسکتا اور جو روح ِشعر کے منافی ہے ، شاعری اپنے خالق کی کلی شخصیت کے شعور سے تشکیل پاتی ہے ، یہ جتنا عقلی ہے اتنا ہی وہبی بھی ہے، یہ جتنا شعوری ہے اتنا ہی لاشعوری بھی ہے ،اقبال کی تفکری شاعری ان کی شخصیت کی جملہ قوتوں کا اظہارہے ، ظاہرہے ان کی فکر ان کے کلی تخلیقی وجود کا حصہ ہے ۔ یہ ’’رومان وخرد‘‘ کی آمیزش ہے ۔اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ان کا شعری عمل اس کائناتی آگہی کے عین مطابق ہے ، جو ہربڑے تخلیقی فنکار کی مانند اقبال کو ودیعت ہوئی ہے اور جو سائنسی تحقیق وتفتیش کے مطابق ہونے کے ساتھ ہی فکری اساس بھی رکھتی ہے ، اس کی رو سے انسان کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب بنا کے بھیجا گیا ہے اور وہ اپنی خود آگاہی کے مطابق ان صفات کا احاطہ کرتاہے، جو ذات باری سے مختص ہیں ، تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ باطنی بصیرت سے اس کائناتی آگہی ، جو تخلیقیت کی آگاہی ہے ، پر متصرف ہو جاتاہے اور اظہار کے پیرائے وضع کرتاہے ۔ ظاہرہے یہ فلسفے کو اپنے اوپر لادنے یا اسے سوچے سمجھے گئے موضوع کے طور پر پیش کرنے کاعمل نہیں بلکہ ایک ایسی فکری آگہی ہے ، جوداخلی وجود کی پوری توانائی کے ساتھ باطن میں اُگتی ہے اور ہمہ گیر ہو جاتی ہے ، نتیجے میں شعراورفلسفہ میں کوئی تناقض باقی نہیں رہتا ۔
فلسفہ وشعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
رہے وہ افکار ، جوانہوں نے مشرق ومغرب کے فلسفوں سے اخذ کئے ہیں ، وہ بھی طے کردہ مافیہ کے طور پر ان کے دائرہ فکر میں در نہیں آئے ہیں بلکہ ان کے فکری نظام سے مطابقت پیدا کرکے اس کی تقویت اور تکمیلیت کا مؤجب بن گئے ہیں ؎
خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
بلاشبہ ان کے یہاںفکروجدان بن جاتی ہے ، اور ارض وسماء کے حقائق کو منکشف کرتی ہے ؎
علم را مقصود اگر باشد نظر
مے شود ہم جادہ وہم راہبر
اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکا رکااظہا رنثر میں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں بھی کیا ۔فلسفہ چونکہ منطقیت اور عقلیت پر انحصار رکھتاہے ۔ اس لئے نثری اسلوب اس کے لئے موزون ہوسکتاہے ۔ چنانچہ ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید‘‘ میں ان کانثری اظہار ان کے افکار کی مطلوبہ ترسیلیت کرتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیاشاعری میں ان کے افکار شعری پیرایۂ اظہار سے مطابقت قائم کرسکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ روایتی فلسفیو ں اور متکلمین کی طرح اقبال محض ایک فلسفی نہیں بلکہ ایک مسلمہ تخلیقی فنکار بھی ہیں، اس لئے ان کا دائرہ کار ماقبل کے فلسفیوں سے مماثل ہونے کے باوصف مختلف ہے ۔ اس بظاہر تناقض کو یوںحل کیا جاسکتاہے کہ اقبال نے ایک روایتی فلسفی کی طرح زندگی ، کائنات اور خدا جیسے ازلی مسائل پر اکاڈمک انداز میں تفکر نہیں کیا بلکہ فکری اُپج اور تجسس کو اولیت دی ۔ انہوں نے اپنی ذہنی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور تمام عمرشعر کہتے رہے ، انہوں نے شعری عمل کے دوران اپنی فکری بصیرت سے اشیاء ومظاہر کی حقیقت کومنکشف کرنے کی سعی کی ، اس طرح سے یہ ان کا وجدانی شعور ہے جو اُن کی شاعری سے منسوب کرنے کے ساتھ ہی کائناتی مسائل پر تدبروتفکر کرنے پر راغب کرتاہے اور یہ ان کے وجدانی شعور کی وسعت طلبی ہے جو انہیں ماقبل کے فلسفی شعراء پر سبقت لے جانے کی ضامن ہے ، غالب وحدت الوجودی تصور سے آگے نہ بڑھے جبکہ اقبال نے وحدت الشہود کے نظریئے کی صورت میں اپنی پیش رفت کاثبوت دیا۔ یہ تناقص یہ کہہ کر بھی دور کیا جاسکتاہے کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ تصورات محض علم واکتساب سے اپنے اوپراوڑھے نہ تھے ، اگر ایسا ہوتا تو ان کی شاعری کا استناد خطرے کی زد میں آتا ، کیونکہ ایسی صورت میں ان کا تفکر محض تعقلی عمل ہوکے رہ جاتا ، جوشخصیت کی جامعیت پر حاوی نہیں ہوسکتا اور جو روح ِشعر کے منافی ہے ، شاعری اپنے خالق کی کلی شخصیت کے شعور سے تشکیل پاتی ہے ، یہ جتنا عقلی ہے اتنا ہی وہبی بھی ہے، یہ جتنا شعوری ہے اتنا ہی لاشعوری بھی ہے ،اقبال کی تفکری شاعری ان کی شخصیت کی جملہ قوتوں کا اظہارہے ، ظاہرہے ان کی فکر ان کے کلی تخلیقی وجود کا حصہ ہے ۔ یہ ’’رومان وخرد‘‘ کی آمیزش ہے ۔اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ان کا شعری عمل اس کائناتی آگہی کے عین مطابق ہے ، جو ہربڑے تخلیقی فنکار کی مانند اقبال کو ودیعت ہوئی ہے اور جو سائنسی تحقیق وتفتیش کے مطابق ہونے کے ساتھ ہی فکری اساس بھی رکھتی ہے ، اس کی رو سے انسان کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب بنا کے بھیجا گیا ہے اور وہ اپنی خود آگاہی کے مطابق ان صفات کا احاطہ کرتاہے، جو ذات باری سے مختص ہیں ، تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ باطنی بصیرت سے اس کائناتی آگہی ، جو تخلیقیت کی آگاہی ہے ، پر متصرف ہو جاتاہے اور اظہار کے پیرائے وضع کرتاہے ۔ ظاہرہے یہ فلسفے کو اپنے اوپر لادنے یا اسے سوچے سمجھے گئے موضوع کے طور پر پیش کرنے کاعمل نہیں بلکہ ایک ایسی فکری آگہی ہے ، جوداخلی وجود کی پوری توانائی کے ساتھ باطن میں اُگتی ہے اور ہمہ گیر ہو جاتی ہے ، نتیجے میں شعراورفلسفہ میں کوئی تناقض باقی نہیں رہتا ۔
فلسفہ وشعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو
رہے وہ افکار ، جوانہوں نے مشرق ومغرب کے فلسفوں سے اخذ کئے ہیں ، وہ بھی طے کردہ مافیہ کے طور پر ان کے دائرہ فکر میں در نہیں آئے ہیں بلکہ ان کے فکری نظام سے مطابقت پیدا کرکے اس کی تقویت اور تکمیلیت کا مؤجب بن گئے ہیں ؎
خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
بلاشبہ ان کے یہاںفکروجدان بن جاتی ہے ، اور ارض وسماء کے حقائق کو منکشف کرتی ہے ؎
علم را مقصود اگر باشد نظر
مے شود ہم جادہ وہم راہبر
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔