مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ....................شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday, 18 March 20120 comments

علامہ اقبال نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ در اصل علامہ اقبال کا نظریہ اور تعلیمات حضرت محمد صلی علیہ وسلم کا وہ پیغام تھا جس کو انہوں نے اپنی شاعری کے رنگ میں ڈال کر تمام مسلمانان عالم بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں اور نوجوانوں تک پہنچایا۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں پر اس بات کا زور دیا ہے کہ اللّہ تعالیٰ کے یقین محکم کو اپنے دل میں اتارو اور زندگی میں باربار ہارنے کے باوجود بھی محنت اور جدوجہد نہ چھوڑنا اوراتنی محبت بانٹنا کہ تم اپنے محبت کی وجہ سے پوری دنیا پر چھا جاؤں۔ یقین محکم،عمل پیہم،محبت فاتح عالم ۔۔۔۔جہاد زنداگانی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں۔۔۔۔یہی اپنے آپ اتنے باکرداراوراتنے ثابت قدم اور اتنے محبت کرنے والے بنالوں کہ پورا عالم آپ کے محبت اور کردار کو دیکھ کر آپ کادیوانا ہوجائے اور آپ محبت کر کے لوگوں کے دلوں پر چھا جائے۔پورے عالم کو اخلا قی شکست دیں ، اپنے اخلاق سے دوسروں کوفتح کرنے کی کوشش کریں کیونکہ زندگی گزارنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور یہی اخلاقیات اور محبت کا نعرہ وہ نعرہ ہے یہی وہ جھنڈا ہے جس کو سب سے پہلے سرداردوجہاں حضوراقدس صلی علیہ وسلم  نے لہرایا ۔یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا کے غیر مسلم بھلے ہی نبی صلی علیہ وسلم کے نظریات سے اختلاف کرے لیکن انکے کردار اوراخلاقی قوت پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرأ ت بھی نہیں کرسکتا۔
باہرحال جیسا کے میں نے شروع میں عرض کیا کہ علامہ اقبال نے قرآن و حدیث کو اپنی شاعری کے ذریعے آگے پہنچایااور اس کی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جیسا کہ مثال کے طور پر سورۃ حٰمٓ السجدہ کی آیت نمبر۱۷کا ترجمہ علامہ اقبال نے کچھ یوں کیاکہ
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوار کارفرمائی
نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب ونظر کی رسوائی
سورۃ النساء کی آیت نمبر۶۴ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کچھ یوں کہا کہ
کی محمدصلی علیہ وسلم سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
سورۃ الممتحنتہ کی آیت نمبر۴ کو یوں بیان کیا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی
مثالیں سینکڑوں ہیں لیکن یہ چند آیات اور اشعار میں ان کا ترجمہ میں نے سمجھنے کیلئے پیش کیا کہ علامہ اقبال نے کِس طرح قرآن و حدیث کو اپنایا اور ان تعلیمات کو کِس طرح آگے پہنچایا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہم نہ تو قرآن کے قریب جاتے ہیں اورنہ حدیث نبوی صلی علیہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں جسکی وجہ سے ہم علامہ اقبال کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ علامہ اقبال کے صوفیانہ کلام اورفلسفیانہ شاعری کو سمجھنے کیلئے قرآن و حدیث کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔کیونکہ جب ہم علامہ اقبال کی شاعری کو سمجھنے کے قابل ہوجائینگے تو ہماری قوم کے اندر ایک عشق اور یقین محکم کی کیفیت پیدا ہوگی جس کی وجہ یہ قوم غیروں کی غلامی کو مسترد کر دے گی اور جو قوم کسی کی غلامی قبول نہیں کرتی وہ اغیار کی محتا ج بھی نہیں رہتی ۔ لیکن ہم نے آج اِن سب باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ذہنی غلامی کو قبول کرلیا ہے اور نتیجتاًکرپشن، لوٹ مار ، بدعنوانی اور لاقانونیت سے سمجھوتا کرلیا ہے غلامی اور محکومی کو قبول لیا ہے، سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی ابتری سے سمجھوتا کر لیا ہے ۔ ہماری حِس بیدار نہیں رہی، ہم بے حس بن چکے ہیں۔ ہماری غیرت ، خوداری اور عزت نفس کھوگئی ۔ یہ سب سمجھوتے کیوں ہورہے ہیں؟ اِس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم آج بحیثیت قوم اللّہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اُس کی عبادت اور پرستش کرنے کے بجائے ذاتی اغراض اور مادی مفادات کو ذیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور ذاتی مفادات کی پرستش کر رہے ہیں۔ ہم نے آج ذاتی مفادات کو، اپنی آنا کو، اپنی خواہشات کو ، ذاتی اغراض کو، اپنے منصب کواور دنیا کی لالچ کو اپنا معبود بنا لیا ہے ۔ ہم نے آج اپنا معبود بدل دیا ہے اور جو قومیں معبود بدل دیتی ہیں اُن کا مستقبل خطرے میں پڑھ جاتا ہے۔ آج اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم غیرت مند،زندہ اور باعزت قوموں کی طرح انفرادی اور اجتمائی خودی کے ساتھ، قوت یقین اور نورعشق کے ساتھ جئے اور مسلسل جہد کے ساتھ چلیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم نے سب سے پہلے ذاتی اغراض ومفادات کے وہ بت جو لات،حبل،منات اور عذات سے بھی ذیادہ پلید ہیں جن کی ہم بڑی دیر سے پوجا کررہے ہیں نکال باہر کرنا ہوگا۔لات، منات، عذات اور حبل نظر آتے تھے اور وہ حرم مکہ میں رکھے گئے تھے لیکن مفادات کے بتوں کو ہم نے اپنے حرم دل میں سجایا ہے ۔ وہ بت پرستی سب کو دیکھائی دیتی تھی لیکن یہ بت پرستی کسی کو دیکھائی نہیں دیتی ، آج ہمارے سروں پر عمامے بھی ہیں، چہروں پر دہاڑیاں بھی ہیں، جبے بھی ہیں، لیڈر بھی ہیں، مَناسب بھی ہیں، جمہوریت کے ڈرامے بھی ہے، مسجدیں بھری ہیں، مدرسے بھر گئے ہیں، عدالت بھی ہے، جج بھی ہیں، حکمران بھی ہیں ، اپوزیشن بھی ہیں لیکن جس کو دیکھو تو اُس کی جبین دلوں میں مزیّن مفادات کے بتوں کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔ جب تک ہم اپنے دلوں کو پاک نہیں کرلیتے اور ان مفادات اور خودغرضی کے بتوں کو توڑ نہیں دیتے، بحیثیت قوم ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔اور اِس طرح کے ہزاروں نونومبر گزر بھی جائیں اور ہم علامہ اقبال کے نظریات کا لحاظ نہ کریں تو ہم یہی کے یہی پڑے رہے نگے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے 
لیکن پھر بھی آنے والے دور کی جو خوبصورت ترین تصویر علامہ اقبال نے مسلمانوں کو دیکھائی تھی،وہ شاندار مستقبل آج بھی مسلمانوں کامنتظر ہے ، علامہ اقبال کو اللّہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بھیجا جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد آنا تھا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود سے شروع کرکے ہر ایک پاکستانی اور ہر مسلمان کو علامہ اقبال کے خوابوں کی قدر کرنا سکھائیں اور اس کے لئے جدوجہد بھی کرے۔ کیونکہ اللّہ تعالٰی اُنہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرنا سیکھیں۔۔۔۔
انتظامیہاپنا مقام پیدا کر
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی