شبنم اور ستارے

Monday 19 March 20120 comments

شبنم اور ستارے


اک رات يہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو ميسر ہيں نظارے
کيا جانيے ، تو کتنے جہاں ديکھ چکي ہے
جو بن کے مٹے، ان کے نشاں ديکھ چکي ہے
زہرہ نے سني ہے يہ خبر ايک ملک سے
انسانوں کي بستي ہے بہت دور فلک سے
کہہ ہم سے بھي اس کشور دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کي محبت کا ترانہ
اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کي
گلشن نہيں ، اک بستي ہے وہ آہ و فغاں کي
آتي ہے صبا واں سے پلٹ جانے کي خاطر
بے چاري کلي کھلتي ہے مرجھانے کي خاطر
کيا تم سے کہوں کيا چمن افروز کلي ہے
ننھا سا کوئي شعلہ بے سوز کلي ہے
گل نالہ بلبل کي صدا سن نہيں سکتا
دامن سے مرے موتيوں کو چن نہيں سکتا
ہيں مرغ نواريز گرفتار، غضب ہے
اگتے ہيں تہ سايہ گل خار، غضب ہے
رہتي ہے سدا نرگس بيمار کي تر آنکھ
دل طالب نظارہ ہے ، محروم نظر آنکھ
دل سوختہ گرمي فرياد ہے شمشاد
زنداني ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
تارے شرر آہ ہيں انساں کي زباں ميں
ميں گريہ گردوں ہوں گلستاں کي زباں ميں
ناداني ہے يہ گرد زميں طوف قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا
بنياد ہے کاشانہ عالم کي ہوا پر
فرياد کي تصوير ہے قرطاس فضا پر
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی