کنار راوي

Monday 19 March 20120 comments

کنار راوي


سکوت شام ميں محو سرود ہے راوي
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کيفيت مرے دل کي
پيام سجدے کا يہ زير و بم ہوا مجھ کو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
سر کنارہ آب رواں کھڑا ہوں ميں
خبر نہيں مجھے ليکن کہاں کھڑا ہوں ميں
شراب سرخ سے رنگيں ہوا ہے دامن شام
ليے ہے پير فلک دست رعشہ دار ميں جام
عدم کو قافلہ روز تيز گام چلا
شفق نہيں ہے ، يہ سورج کے پھول ہيں گويا
کھڑے ہيں دور وہ عظمت فزائے تنہائي
منار خواب گہ شہسوار چغتائي
فسانہء ستم انقلاب ہے يہ محل
کوئي زمان سلف کي کتاب ہے يہ محل
مقام کيا ہے سرود خموش ہے گويا
شجر ، يہ انجمن بے خروش ہے گويا
رواں ہے سينہء دريا پہ اک سفينہ تيز
ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستيز
سبک روي ميں ہے مثل نگاہ يہ کشتي
نکل کے حلقہ حد نظر سے دور گئي
جہاز زندگي آدمي رواں ہے يونہي
ابد کے بحر ميں پيدا يونہي ، نہاں ہے يونہي
شکست سے يہ کبھي آشنا نہيں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے ليکن فنا نہيں ہوتا
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی