علامہ محمد اقبال کی شخصیت by اروسا جاوید

Monday 26 March 20120 comments

علامہ محمد اقبال نابغہ روزگاراور ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر، شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنما تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ تاریخ کے اوراق انکی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دوراندیشی نیز قوم سے انکی خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔ انکے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ شاعر مشرق اور مفکر اسلام تو تھے لیکن زندگی بھر عملی سیاست سے الگ تھلگ اور گوشہ نشین رہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے عہد کی سیاسی تحریکوں کو انکے صحیح پس منظر میں سمجھتے تھے بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے۔ درحقیقت سیاست انکی زندگی کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے سترہ برس پیشتر ہی اپنی بصیرت سے مستقبل کے دھندلے نقوش میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا نقشہ ابھرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
علامہ اقبال کے انتقال پر قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ’’مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور انکے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ انکے ریکارڈ کا مقابلہ عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جبکہ غیرمتوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لئے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا۔ وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر سنا ہو گا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانان پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اسکے جھنڈے تلے آ چکے ہیں جو یقیناً سر محمد اقبال کیلئے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں انکے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔‘‘
علامہ اقبال کی زندگی ہی میں ہندوستان بھر میں ’’یوم اقبال‘‘منایا گیا۔ لاہور میں انٹرکالجیٹ مسلم برادر ہڈ کے زیراہتمام 9جنوری 1938ء کو یوم اقبال منانے کا اعلان کیا گیا۔ 5دسمبر1937ء کو پنجاب کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے اس تقریب کیلئے اپنے پیغام میں کہا ’’یوم اقبال کو ایک مقدس قومی تقریب کے طور پر منائے جانے پر ہر ہندوستانی کو بالعموم اور ہر پنجابی کو بالخصوص سچے دل سے خوش ہونا چاہئے۔ میری دلی تمنا ہے کہ اس یادگار تہوار کی مسرتیں جو ایشیا کے نامور فلسفی اور عظیم المرتبت شاعرکے نام سے منسوب ہے صرف ہندوستان تک محدود نہ رہیں بلکہ تمام مشرقی ممالک ان میں شریک ہوں‘ ہمارا فرض ہے کہ اس تقریب کو اس متانت سنجیدگی اور وقار سے منائیں جس سے ایک طرف تو دنیا پر اقبال کی عظمت اور اسکی شاعری کی حقیقی قدر و منزلت ظاہر ہو جائے اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہو کہ ایشیاء اپنے اس فرزند جلیل کے ادبی کارناموں کی قدر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ عرصہ دراز کی گراں خوابی کے بعد اگر آج ہمیں مسلمانوں میں بیداری کے آثار نظر آتے ہیں تو یہ سب کچھ اقبال کی پرجوش آواز کا اثر ہے۔ ادھر ہندوستان کے باشندوں میں بھی جو تڑپ اور بلند آگہی پیدا ہو رہی ہے وہ بھی اس نابغہ عظیم کی مساعی کی شرمندہ احسان ہے لہٰذا ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ یوم اقبال کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اس میں سرگرمی سے حصہ لے۔ تمام مسجدوں اور مندروں میں اقبال کی صحت اور درازی عمر کیلئے دعائیں مانگی جائیں۔ خدائے تعالیٰ انہیں عرصہ دراز تک سلامت رکھے تاکہ وہ اپنی قوم اور ملک کی خدمت کر سکیں۔‘‘
9جنوری 1938ء کو یوم اقبال منانے کیلئے حیدر آباد کے ٹائون ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس کی صدارت نواب اعظم جاہ پرنس برار نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت سر کشن پرشاد نے کی جو اس سے چند ماہ پہلے حیدر آباد کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا:اردو شاعری کی اس جنم بھومی میں آج کا دن حقیقت میں ایک یادگار دن ہے کیونکہ آج ہم سر اقبال جیسے مشہور و مقبول شاعر کی خصوصیات کی داد و تحسین کیلئے جمع ہوئے ہیں… خودی اقبال کے کلام کا سرنامۂ امتیاز ہے اور یہی ایک لفظ اس تمام دعوت سعی و عمل کا آئینہ دار ہے خودی احساس نفس بلکہ عظمت نفس کا درس ہے جسے اقبال کی باریک بین نظروں نے پہچانا… حقیقت میں اقبال جس بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے وہ اس کاجائز حق ہے اور اس کا پیغام فرزندان مشرق کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ آئندہ نسلیں اس کا فیصلہ کریں گی کہ ہندوستان کی ادبی ناہمواری کی اصلاح اور قومی ترقی میں اس زندۂ جاوید شاعر کا کس قدر حصہ تھا… ظلم ہوتا اگر مشرق اس باکمال شاعر کو اسکی زندگی میں کم سے کم خراج تحسین بھی ادا نہ کرتا۔ مجھے مسرت ہے کہ ہمارے اہل ملک دوسرے اقطاع ہندوستان سے پیچھے نہیں رہے‘ میری دعا ہے کہ خدا سر اقبال کوبہت دن زندہ رکھے تاکہ ہندوستان انکے نغمہ بیداری سے زندگی اور کامیابی کا درست حاصل کرتا رہے۔ 1935ء میں علامہ اقبال کی بیماری کے پیش نظر نواب بھوپال نے ان کیلئے تاحیات پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا ہے۔ نواب بھوپال کا یہ مقدر ہو چکا تھا کہ وہ اس عظیم اسلامی مفکر کو مالی پریشانیوں سے نجات دلائیں گے جسکی عظمت کو سارا عالم اسلام خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
علامہ اقبال کے انتقال پر مولانا آزاد نے ایک بیان میں اپنے جذبات کا یوں اظہارکیا: یہ تصور کس قدر المناک ہے کہ اقبال اب ہم نہیں۔ جدید ہندوستان اردو کا اس سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکتا۔ اسکی فارسی شاعری کا بھی جدید فارسی ادب میں اپنا ایک مقام ہے۔ یہ تنہا ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پورے مشرق کا نقصان ہے۔ ذاتی طور پر میں ایک پرانے دوست سے محروم ہو گیا ہوں۔
بلند پایہ ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے اقبال کی عظمت کا ہمیشہ اعتراض کیا اور انہیں اس دور کا سب سے بڑا شاعر کہا۔ ایک بار فیض سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں علامہ اقبالؒ کا شاعری میں کیا مرتبہ ہے؟ بولے: جہاں تک شاعری میں sensibility، زبان پر عبور اور غنائیت کا تعلق ہے ہم تو انکی خاک پا بھی نہیں۔ علامہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ اگر وہ سوشلزم کے معاملے میں ذرا سنجیدہ ہو جاتے تو ہمارا کہیں ٹھکانا نہ ہوتا۔ فیض ہی نے تو کہا ہے:
آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
فیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا‘ فکر اور شعر دونوں میں ہمہ گیر اور آفاقی۔
فیض کراچی جاتے تو ہمیشہ مجید ملک کے ہاں ٹھہرتے ایک بار مجید ملک پوچھنے لگے: فیض، اب تمہاری عمر کیا ہے؟ فیض نے بتایا کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہیں۔ مجید ملک بولے: آپکو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کیا کچھ کر لیا تھا۔ اسکے بعد مجید ملک نے اقبال کی جملہ تصنیفات نظم و نثر کے نام گنوا دیے اور تان اس پر توڑی کہ فیض کی اب تک فقط دو ہی کتابیں شائع ہوئی ہیں: ’’نقش فریادی‘‘ اور ’’دست صبا‘‘۔ فیض نے بڑے ادب اور انکسار کے لہجے میں جواب دیا: مجید بھائی، اب آپ میرا موازنہ اقبال سے تو نہ کیجئے۔ ان کا تخلیقی جوہر تو ایک شعلہ جوالا تھا اور میرا ایک ننھی سی شمع کی لو۔
یکم دسمبر 1931ء کو اقبال مصر پہنچے۔ حمزہ فاروقی لکھتے ہیں کہ 2دسمبر 1931ء کی صبح مصر کے مشہور صاحب طریقت بزرگ سید محمد ماضی ابوالعزائم اپنے دو صاحبزادوں کیساتھ اقبال سے ملاقات کیلئے اس ہوٹل میں آئے جہاں اقبال ٹھہرے ہوئے تھے۔ اقبال انہیں ہوٹل میں دیکھ کر پریشان ہوئے اورکہا کہ آپ نے تکلیف کیوں کی، میں خود حاضر ہو جاتا۔ انہوں نے کہا: ’’خواجہ دوجہاںﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے تمسک کیا ہو اسکی زیارت کو جائو گے تو مجھے خوشی ہو گی۔ لہٰذا میں اس ارشاد کے اتباع میں چلا جاتا ہوں تاکہ میرے آقا مجھ سے خوش ہوں۔‘‘ اقبال ان کی بات سن کر بے تاب سے ہو گئے۔ سید ابوالعزائم دیر تک بیٹھے نصیحتیں کرتے رہے۔ یہ بھی کہا کہ میں بادشاہوں کی ملاقات کیلئے بھی گھر سے باہر نہیں نکلا۔ لیکن آپکی ملاقات کیلئے آیا ہوں۔ جب وہ چلے گئے تو آنسوئوں کا سیلاب اقبال کی آنکھوں سے بے اختیار بہہ نکلا: ’’ایسا زمانہ بھی آ گیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گار کو متمسک بالدین سمجھ کر حضور خواجہ دوجہاںﷺ کے ارشاد کے اتباع میں بغرض خوشنودی آنحضرت ﷺ ملنے آتے ہیں۔
اپنی وفات سے چند ماہ پہلے علامہ اقبال نے اپنے بارے میں یہ لاجواب رباعی کہی کہ جسے پڑھ کر ان کی عظمت کا شدید احساس دل و دماغ پر چھا جاتا ہے۔ بے شک، وہ ایک ایسی عظیم ہستی تھی کہ صدیوں کے انتظارکے بعد جس کی آمد سے زمانے کی آرزو پوری ہوتی ہے۔ …؎
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے رازآید کہ ناید
(ترجمہ: سرود رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے، یہ فقیر دنیا سے جا رہاہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے)
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی