کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینے میں.......شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday 18 March 20120 comments

انسانی زندگی کے ادوار قوس و قزح کے رنگوں کی مانند ترتیب میں ایک کے بعد ایک دوسرا رنگ دکھاتا ہے ۔زندگی کی ترتیب بھی قوس و قزح کے رنگو ں کی طرح بدلتی نہیں ۔ بچپن ، لڑکپن ، ادھیڑ پن اور بڑھاپا۔ ہر انسان میں زندگی کے ادوار اسی ترتیب میں ہیں ۔ ہر رنگ کی اپنی جاذبیت اور خوبصورتی رکھتا ۔ بڑھاپا جوانی میں اچھا نہیں لگتا ۔ تو جوانی میں بچپنا بھی اچھا نہیں لگتا ۔ وقت سے پہلے شعور کا ادراک بے باک پن دیتا ہے ۔کھانا دیگوں میں تیار ، پلیٹ میں کھایا تو پانی سے بہایا جاتا ہے ۔دودھ کے دانت ٹوٹ جائیں تو نئے طاقت بھر لاتے ہیں ۔اگر طاقت کے ٹوٹ جائیں تو کمزوری میں چھپاتے ہیں ۔ زندگی میں رنگ رلیاں ہیں مگر رنگ رلیوں میں زندگی کے رنگ نہیں ۔انسان کے ادوار سوچ کی تبدیلی کی صورت میں نمایا ں ہوتے ہیں ۔ جو اس کی زندگی کو الگ زاوئے سے دکھاتے ہیں ۔زندگی میں سوچ میں پیدا ہوتے کیونکر کے سوال رفتہ رفتہ بدلتے جاتے ہیں ۔ جو ں جوں حالات بدلتے ہیں ایک نیا کیونکر پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔سالوں ایک سوال کے جواب پانے میں گزر جاتے ہیں ۔علامہ محمد اقبال کی زندگی کے ادوار ان کی شاعری کے ادوار سے منسلک نظر آتے ہیں

۔سیاسی اور معاشرتی ادوار میں تغیر و تبدل سے ان کے افکار میں بھی یہ رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔

شاعری کا پہلا دور 1905 تک

ان کی شاعری کا پہلا دور 1905 تک بیان کردہ کلام پر مبنی ہے جب کہ ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رنگون نظر بندی کے بعد ہندوستان کی سیاسی فضا قدرے غیر سیاسی رہی ۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کا شعور بیدار کرنے میں عملی لحاظ سے فعال تھی ۔ یہاں علامہ صاحب کی شاعری کا روائتی انداز بھی کچھ یوں تھا ۔تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہيںاے گل رنگيں ترے پہلو ميں شايد دل نہيںزيب محفل ہے ، شريک شورش محفل نہيںيہ فراغت بزم ہستی ميں مجھے حاصل نہيںعہد طفلی کو بھی اشعار میں قلمبند کر دیا ۔تھے ديار نو زمين و آسماں ميرے ليےوسعت آغوش مادر اک جہاں ميرے ليےتھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں ميرے ليےحرف بے مطلب تھی خود ميری زباں ميرے ليے

علامہ صاحب سے پہلے اردو شاعری کا انداز شاہانہ تھا ۔ شاہی محلوں میں شاعروں کی سرپرستی کی جاتی ۔تعریف و تحسین سے پزیرائی کی جاتی اور واہ واہ سے داد دی جاتی ۔ مگراردو شاعری قوم کی تربیت کے عنصر سے محروم تھی ۔صرف ایک شاعر مرزا اسد اللہ غالب اس زبوں حالی کو اپنے اشعار میں بیان کر گیا ۔ جن کے بارے میں علامہ صاحب نے ایک اچھوتے انداز بیان میں خراج تحسین پیش کیا کہ لطف گویائی میں غالب کی ہمسری ممکن نہیں ۔فکر انساں پر تری ہستی سے يہ روشن ہواہے پر مرغ تخيل کی رسائی تا کجاتھا سراپا روح تو ، بزم سخن پيکر ترازيب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہانطق کو سو ناز ہيں تيرے لب اعجاز پرمحو حيرت ہے ثريا رفعت پرواز پرلطف گويائی ميں تيری ہمسری ممکن نہيںہو تخيل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشيں

اس زمانہ میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاً مکڑا اور مکھی ، پہاڑ اور گلہری ، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا ۔کبھی بچے کی دعا کہہ گئے۔جو ہر سکول کے بچے کی زبان پر ہے ۔لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميریزندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری

کبھی ماں کا خواب بیان کر گئے ۔پرندے کی فریاد تو کبھی شمع اور پروانہ کی کہانی ان کے قلم سے بیان ہوتی رہی ۔انسان اور بزم قدرت کو انہوں نے اپنی تخیل فکر سے شاعری میں ڈھال دیا ۔صبح خورشيد درخشاں کو جو ديکھا ميں نےبزم معمورہ ہستی سے يہ پوچھا ميں نےصبح اک گيت سراپا ہے تری سطوت کازير خورشيد نشاں تک بھی نہيں ظلمت کاميں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی ميں مگرجل گيا پھر مری تقدير کا اختر کيونکر؟نور سے دور ہوں ظلمت ميں گرفتار ہوں ميںکيوں سيہ روز ، سيہ بخت ، سيہ کار ہوں ميں؟

شاعری کا یہ دور علامہ صاحب کی قدرت سے وابستگی کا نقطہ آغاز تھا ۔رخصت اے بزم جہاں ، چاند ، سرگزشتہ آدم ، نالاں ء فراق اور تصویر درد کا اظہار خوبصورت انداز میں کیا ۔اسی انسانیت کے ناطے ترانہء ہندی لکھا ۔ جو آج بھی ہندوستان کی فضاؤں میں گونجتا ہے ۔ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستان ہمارااپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال کی توجہ غزل گوئی کی جانب تھی اور ان غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین ہی باندھے جاتے تھے۔علامہ صاحب کا یہی دور ہے جب انہوں نے مخصوص روائتی شاعرانہ انداز میں غزلیات لکھیں ۔مانا کہ تيری ديد کے قابل نہيں ہوں ميںتو ميرا شوق ديکھ، مرا انتظار ديکھ

اس دور کی یادگار کے طور وہ مشہور غزل بھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں۔نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھیمگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھیتمہارے پیامی نے سب راز کھولاخطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی
لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی جستجو تلاش میں سرگرداں تھے ۔اور دل کی اصل کیفیت کی طرف رغبت بار بار جا رہی تھی۔اس لئے تو لکھتے ہیں ۔جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميںوہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميںحقيقت اپنی آنکھوں پر نماياں جب ہوئی اپنیمکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميںتمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقيروں کینہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی