اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

Monday 26 March 20121comments

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبد شاہیں پہ بسیرا
کنجشک فرا مایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری ، وعیاری ، وغداری وہیجان
اب بنتا ہے ان چاروں عناصر سے مسلماں
قاری اسے کہنا بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی وحق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری وروباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کو تاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہو ئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر
اب مومن کی نگا ہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
تو حید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر وسناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سو گئی ،طاؤس پہ آکر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مر مرکی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیا ر نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلماں ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہو ئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہا ں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار میں ہم چھٹ اس بار، گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

+ comments + 1 comments

10 March 2013 at 14:04

اگرچہ آج دقتیں ہیں، مشکلات ہیں، عوام الناس مجبور ہیں، تعلیم یافتہ طبقہ بے روزگار ہے، مزدور دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے، کسان لاچار ہے، مریض تڑپ رہے ہیں، مقروض زنجیرپا ہیں، لیکن، لیکن وہ وقت زیادہ دور نہیں، جب ہم پاکستان دیانت دار اور باصلاحیت قیادت تلاش کر لیں گے اور پھر ہمارا وطن دوبارہ ترقی کی منزلوں کی طرف رواں دواں ہو گا۔ اس لیے مایوس نہ ہوں اور اچھے وقت کا انتظار کریں۔ البتہ اس عبوری دور میں ہم اپنی اولاد کو حوصلہ دیتے رہیں، اپنے مزدوروں کی دل جوئی کرتے رہیں، اپنے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں اور خود کو بھی سنبھالے رکھیں، تاکہ سیاہ گھنیرے بادلوں کے چھٹنے کے بعد ہم اس قابل ہوں کہ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال سکیں۔ اللہ اس ملک کا حامی و ںاصر ہے، اس لیے انتہائی مخدوش حالات میں بھی مجھے روشن کل کا کامل یقین ہے۔ اس لیے کہ اس وطن کی بنیادوں میں ہمارے آبا و اجداد کا خون بھی ہے اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و حرمت بھی۔ ہماری شیرخوار بچوں کی سسکیاں بھی ہیں اور ہمارے ان بچوں کی لاشیں بھی، جو برچھیوں سے کلام کرتے پلٹ گئے تھے۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے گا۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی