-اقبال اور جدیدیت ................شکیل احمد چوہان کی پوسٹ

Sunday 18 March 20121comments

اس سے پہلے کہ ہم اقبال اور جدیدیت پر کوئی بات کریں ہمیں جدیدیت سے متعلق اپنے معتقدات کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ جدیدیت کی دو صورتیں ہیں، ایک مغربی جدیدیت اور ایک اسلامی جدیدیت۔مغربی جدیدیت کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ اس کی بنیاد نطشے نے رکھی تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ نطشے کوOntological Postmodernism (وجودی پس جدیدیت) کا امام کہا جاتا ہے۔ نطشے نے پہلی مرتبہ Superman (انسان کامل) اور will to power (اقتدار کی ارادت) کا تصور پیش کیا۔ جو مغرب کے عظیم مفکر اس نظریے سے فوراً متاثر ہوئی، ان میں ہائیڈیگر، جیسپر، سارتر اور رِلکے شامل ہیں۔ نطشے کا سپرمین جدید دنیا کا آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ اقبال کے یہاں انسانِ کامل کا تصور نطشے کے یہاں ہی سے آیا مگر اقبال کے انسانِ کامل (مرد مومن) اور نطشے کے سپر مین میں ایک واضح فرق اس بات کا ہے کہ اقبال کے سپر مین کے ارتقا میں روحانیت اور تصوف کا بہت دخل ہے۔ اور یہ بھی کہ اقبال اپنے انسانِ کامل میں مشرق مغرب دونوں کے کلچر کو معراج پر پہنچا ہوا دیکھنا چاہتے تھی، علاحدہ علاحدہ نہیں بلکہ ایک دوسرے میں مدغم۔ اقبال اپنے عقیدے کے مطابق انسان کو تاریخ کا حتمی منتہا نہیں سمجھتے تھے اور اس کی قدر و قیمت اسی وقت ممکن تھی جب وہ انسانِ کامل کے درجے پر پہنچ جائے۔نطشے کا کہنا تھا کہ"Be faithful to the earth" ( یعنی دنیا کے ہو کے رہو) جب کہ اقبال نے انسان سے ماورائیت اور روحانیت اور تصوف کے اصولوں پر بھی عمل پیرا ہونے کا تقاضا کیا۔اقبال کا انسانِ کامل نہ صرف مشرق کا بلکہ سارے عالم کا آئیڈیل ہے۔ اقبال کی اسلامی جدیدیت سر سیّد اور شاہ ولی اللہ کے نظریے سے ماخوذ ہے۔ ان کا فلسفہ¿ خودی تمامbeings کے لیے ہے اور وہ اسے ایک آفاقی اور حرکی قدر کی حیثیت دیتے ہیں۔ اقبال کے یہاں تصوف کی صورت بھی بالکل روایتی نہیں ہے۔ وہ یہ کہتے ہے کہ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو خدا کی طرح خلق کرنے کی قدرت بھی عطا کرتی ہے۔ یوں اقبال کا انسانِ کامل انسان کو transcend کرتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ اقبال کا انسانِ کامل مآلِ کار اپنے اعلیٰ ترین درجے میں سرورِ کائنات حضرت محمدﷺ کی شخصیت کا عکس ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اقبال کی جدید اسلامی فکر کے ادراک کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اقبال کے Thought Content کو بخوبی سمجھ لیں۔ اقبال کی فکر میں اسلام کی خدا سے متعلق وحدانیت رچی بسی ہوئی ہے۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہی ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات اقبال کے مسلمانوں کی تاریخ کے افق پر طلوع ہونے کے دور میں مسلمانوں کے سامنے وہی مسائل تھے جن کا تعلق تصوف سے تھا۔مگر اقبال کے یہاں نطشے کے زیرِ اثر انسانِ کامل کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ کسی قدر "human too human" اور "Beyond Good and Evil" سے متاثر ہے۔ ان کے ایسے مصرعے کہ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کری، اس بات کو وقعت بخشتے ہیں۔ لیکن اقبال کسی بھی صورت ان معنوں میں بنیاد پرست نہیں تھے جن معنوں میں اہلِ مغرب اسے استعمال کرتے ان کی بنیاد پرستی جیسے کہ اوپر کہا گیا ہی، وحدانیت اور رسول اللہ کی جامع شخصیت تک ہے اور بس۔ مگر اس کو بنیاد پرستی کہا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے کہ یہ فکرِ اسلامی کا corner stone ہے۔اگرچہ اقبال کے یہاں بھی مغرب کی طرح جدیدیت میں احساسِ مغائرت پایا جاتا ہے مگر اقبال اس احساس کو جدید دور کے انسان کی کمزوری نہیں بلکہ ایک قوت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک انسانِ کامل کیbecoming ( یعنی آفرینش) کا تعلق ہی، اس میں یہ طے کر لینا بہت ضروری ہے کہ کیا، اقبال مذہب کو اس میں لازم قرار دیتے ہیں؟ تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اقبال نے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ مذہب فلسفے کا جزو نہیں۔ بلکہ اس کے بر عکس یہ کہ فلسفہ اس لحاظ سے مذہب سے کم تر ہے کہ فلسفہ مذہب کی طرح انسان کی ہستی کی کلیت کا آئینہ دار نہیں۔ اسی سلسلے میں انھوں نے فکر اور وجدان کے فرق سے بھی بحث کی اور یہ کہا کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں یا "counterparts" ہیں۔ اس طرح مغربی جدیدیت سے اقبال کا اختلاف اور اسلامی جدیدیت کا حامل ہونا صاف ظاہر ہوجاتا ہے۔ اور جب اقبال نے مذہب اور فکر اور وجدان کے بارے میں یہ کہا تو گویا انھوں نے Thinking (یا تعقل کرنی) اور مذہب کو ایک دوسرے کی نفی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے اثبات کا درجہ دیا۔ پھر یہ بھی کے اقبال نے اسلامی جدیدیت کے خدوخال کو اور زیادہ واضح کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ توحید محض ایک ایسا مسئلہ نہیں جس کو عقیدے کے زمرے میں شامل کرکے رکھ دیا جائے بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے ہم ایک ٹھوس معاشرتی حقیقت گردانیں۔ مغربی جدیدیت کے ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ ©” جدیدیت، ایک عبوری، گریزاں اور امکانی نوعیت رکھتی ہے اور یہ کہ یہ نصف آرٹ ہے اور نصف دائم اور immutable یعنی ناقابلِ تقلیب ہے۔ اور آئیڈیل کے بارے میں یہ کہ ”آئیڈیل کسی موہوم شے کا نام نہیں بلکہ آئیڈیل ایک ایسا فرد بشر ہے جس نے اپنی تجدید خود کی ہو، فن کے واسطے سی، اور اب اپنی اساسی ہم آہنگی کی درخشاں سچائی ہو۔“ اور اب مغائرت کے بارے میں بھی سن لیجیی، ”اگر روزمرہ زندگی جابرانہ محسوس ہوتی ہے تواس کی کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ وقت یا زمانے کوایک بے انت تکرار کی صورت محسوس کیا جاتا ہے۔“ یہی وجہ تھی جس نے بادلیئر میں بیزاری یا بوریت جس کو فرانسیسی زبان میں ennui کہا جاتا ہی، کے احساس کو اتنا شدید کردیا تھا کہ وہ اسے ایک monster یا عفریت کہتا تھا۔ اقبال کا وقت کا تصور برگساں سے متاثر تھا اور وہ اسی لیے زندگی کو جاوداں، پیہم رواں ہر دم دواں ہے زندگی کہتے تھے۔ ایک اور بات جو انیسویں صدی کی جدیدیت میں پائی جاتی ہی، وہ یہ ہے کہ نیچر کو رد کرتی ہے۔ لیکن یہ سب معتقدات اس وقت کے بورژوا کلچر کی پیداوار تھے۔ تو یہ تو تھیں وہ اہم خصوصیات جو مغربی جدیدیت میں پائی جاتی تھیں۔ لیکن اقبال جو اسلامی جدیدیت کے قائل اور پرچارک تھی، ان کے یہاں مذہب اور فلسفے اور آرٹ کے ادراک کا پیراڈائم خالصتاً صوفیانہ اور وحدانیت اور رسول اکرم کی شخصیت کی کاملیت سے تشکیل ہوا تھا۔اقبال کے فلسفہ¿ خودی کو بہ نظر غائر دیکھ جائے تو جو باتیں بہت آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں، وہ یہ ہیںکہ علامہ اقبال جن کو ہم نو جدیدیت کا حامی بھی کہہ دیتے ہیں، اس دنیا کو ایک dynamic (حرکی) دنیا کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق انسان بذاتِ خود اور جس دنیا میں وہ رہتا بستا ہی، دونوں کو فطرت نے تخلیقی منازل طے کرنے کے لیے ہر جبر سے آزاد کر رکھا ہے۔ قدرتِ بشر کے سلسلے میں ان کا نظریہ انتہائی روشن اور رجائی تھا۔ اس نظریے کے تحت وہ انسان اور خدا کے مابین تعلق کو اس طرح سے دیکھتے تھے کہ انسان اس دنیا میں خدا کا نائب ہے اور اس طرح وہ مغربی جدیدیت کی کوتاہیوں اور گم راہیوں کو دور کرکے اس میں ایک ایسے مذہب کو جگہ دیتے تھے جو بیک وقت ارضی اور سماوی تھا۔ یعنی جس کی بنیاد مادے اور روح دونوں سے تھی۔ فلسفہ¿ خودی میں ان کے Thought- Structure یعنی خیالی ہیئت کا بہت کھل کر اظہار ہوتا ہے۔ فلسفہ¿ خودی کے تحت انسان اپنے اعمال میں بالکل آزاد ہے اور اسے خود اپنی تخلیق اور اپنے مستقبل کی تخلیق میں کلی اختیار حاصل ہے۔ خدا کے مطلق العنان اور قادرِ مطلق ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو ایک خلاق ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انسان اپنی درونی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا ہی کی طرح ساری دنیا پر حکومت کر سکتا ہے اور ایسا ہی با وقار بن سکتا ہے کیوںکہ خودی نے اس ارضی حیات میں اُسے اپنا نائب بنایا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک مسلمان اور ہر انسان کی رہ نمائی کے لیے قران، حدیث، اجتہاد اور اجماع کو بھی انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ W.C. Smith کہتا ہے کہ: اس جدید دور میں جو بھی مسلمان مذہب کی بات کرے گا، اس کے لیے لازم ہے کہ اقبال کے نوجدیدی اسلامی فلسفے سے آگاہ ہو اور اپنی بات وہیںسے شروع کری، جہاں اقبال نے چھوڑی تھی۔ اب تک ہم اقبال کی اسلامی جدیدیت یا نو جدیدیت کی بات کر رہے تھے اور ان کی اس کوشش کی ہمہ گیری کا احاطہ کر رہے تھے کہ وہ مشرق اور مغرب کی جدیدیت کا ادغام کرسکیں لیکن اس سلسلے میں ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوںکہ اقبال محض ایک فلسفی ہی نہیں تھے بلکہ ایک شاعر بھی تھے۔یعنی ادب اور آرٹ کی دنیا سے بھی ان کو بہت گہرا تعلق تھا۔لہٰذا کبھی کبھی ان کو متضادات شاعرانہ احساسات سے دوچار دیکھ کر ہم کو کسی غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہے بلکہ ان کے فن یا شاعری اور ان کے فلسفے کا جدلیاتی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اب آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری کے اسلوب کی بنت کن رنگوں اور تکنیکوں سے کی ہے۔مجھے ان کی غزل سے لے کر ان کی آخری نظم تک ایک ایسا سفر طے ہوتا ہوا نظر آتا ہے جو اقبال نے تو ختم نہیں کیا بلکہ آنے والی نسلوں پر پورا کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ انھوں نے کیا مغربی اور کیا مشرقی ہر دو قسم کی جدیدیت کے رنگوں سے اپنی شاعری کی دنیا کو صرف فیشن کے طور پر نہیں بلکہ ایک انتہائی پاکیزہ مشن کے تحت سنوارا اور سجایا، ان کے چند اشعار پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں: دنیائے ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ بھٹکا ہوا راہی میں ،بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری، اے لالہ¿ صحرائی تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبہ¿ پیدائی، اک لذتِ یکتائی (لالہ¿ صحرائی) اس نظم میں اقبال نے جس مہارت، حسن اور خوبی سے شعور کی رو کا استعمال کیا ہے اس کی داد دینا محال ہی: کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ ....٭.... جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں اور آخر میں ”مسجدِ قرطبہ“: سلسلہ¿ روز و شب، نقش گرِ کائنات سلسلہ¿ روز شب اصلِ حیات و ممات سلسلہ¿ روز و شب، تارِ حریر دو رنگ جس سے بنتی ہے ذات اپنی قبائے دو رنگ غرض کوئی کہاں تک یہ جواہر چن کر اس چھوٹے سے کالم کے ورق پر بکھیرے۔ میں اپنا کالم اس جملے پر ختم کرتا ہوں کہ اقبال وہ شاعرِ مشرق
ہے جس کی مثال مشرق تو کیا شاید مغرب میں بھی ملنا محال ہے۔

بشکریہ انتظامیہاپنا مقام پیدا کر
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

+ comments + 1 comments

Anonymous
18 October 2016 at 09:16

السلام علیکم مجھے تبصرہ تو نہیں کرنا ہے
صرف یہ عرض ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا یہ جو شعر ہے

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہی ہزار سجدوں سے دیتا ہے

یہ آپ کے اوپر آرٹیکل میں لکھا ہوا ہے

کس قدر غیر زمہ داری کے ساتھ

اور
اگر فورم والوں کا یہ حال ہے تو
باقی
کا
کیا کہنا
اس لئے اس کی درستگی ضروری ہے
اور
باقی نیٹ پر بھی تلاش کرو تو
ہزاروں
جگہ
غلط ہی لکھا ہوا ہے اور کوئی درستگی کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہے
اس لئے آپ اپنے فورم پر بھی اس شعر کو درست کریں
اور
کوشش کریں کہ اس بات کہ آگاہی بھی لوگوں کے ساتھ شئیر کریں
شکریہ

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 SirAllama Iqbal Forum سر علامہ اقبال فورم | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی